عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں بشارت سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص چاہتا ہو کہ قرآن کو بغیر کسی تبدیلی اور تغیر کے ویسے ہی پڑھے جیسے نازل ہوا ہے تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کی قراءت کے مطابق پڑھے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 138]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9209)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/7، 26، 38) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت کی فضیلت معلوم ہوئی، اور ان کا طرز قراءت بھی معلوم ہوا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث138
اردو حاشہ: (1) اس میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے انداز تلاوت کی تعریف ہے کہ انتہائی صحت حروف کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں۔ تروتازہ قراءت سے مراد، بغیر تغیر کے تلاوت کرنا ہے۔
(2) جس طرح قرآن مجید کو سمجھنا اور عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح اس کی صحیح اور عمدہ انداز سے تلاوت کرنا بھی ضروری اور قابل تعریف ہے۔ اس سے علم تجوید اور قراءت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
(3) مسلمان بھائی کو ایسی بات بتا دینا اللہ کے ہاں محبوب ترین اعمال میں سے ہے جس سے اسے خوشی حاصل ہو جس طرح حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو خوش خبری دی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاوت کو پسند فرمایا ہے اور اس کے مطابق پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 138