عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کے ساتھ کون کون سے لوگ اسلام لائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آزاد اور ایک غلام“۱؎ میں نے پوچھا: کیا کوئی گھڑی دوسری گھڑی کے مقابلے میں ایسی ہے جس میں اللہ کا قرب زیادہ ہوتا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں رات کی درمیانی ساعت (گھڑی)“۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1364]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10762، ومصباح الزجاجة: 478)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/ 111، 113، 114، 385) (صحیح)» (سند میں عبد الرحمن بن البیلمانی کا سماع عمرو بن عبسہ سے ثابت نہیں ہے، نیز یزید بن طلق مجہول ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، لیکن «جوف الليل الأوسط» کا لفظ منکر ہے، صحیح «الآخر» کے لفظ سے ہے، یہ حدیث (1251) نمر پر گذری ملاحظہ ہو، صحیح ابی داود: 1158)۔
وضاحت: ۱؎: آزاد سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور غلام سے مراد بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔ ۲؎: یعنی درمیانی رات کے وقت، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اخیر تہائی رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اترتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اخیر کی تہائی رات زیادہ افضل ہے، اور ممکن ہے کہ درمیانی رات کے وقت سے یہی مراد ہو، کیونکہ شروع اور آخر کے اندر سب درمیان ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح إلا الجملة الأخيرة منه
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (1251) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 425
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1364
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) یہ واقعہ پہلے حدیث 1251 کے تحت گزر چکا ہے۔ اس کے بعض فوائد وہاں ذکرکئے گئے ہیں۔
(2) حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خدمت اقدس میں حاضر ہوے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف فرما تھے۔ ابھی ہجرت نہیں کی تھی۔ واقعہ کی تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمایئں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب اسلام عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حدیث: 832)
(3) آزاد غلام سے مراد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ یعنی تھوڑے سے افراد جواسلام لائے تھے ان میں نمایاں حضرات یہ تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1364