عبدالرحمٰن بن سائب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے، وہ نابینا ہو گئے تھے، میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے انہیں (اپنے بارے میں) بتایا: تو انہوں نے کہا: بھتیجے! تمہیں مبارک ہو، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم قرآن اچھی آواز سے پڑھتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”یہ قرآن غم کے ساتھ اترا ہے لہٰذا جب تم قرآن پڑھو، تو رؤو، اگر رو نہ سکو تو بہ تکلف رؤو، اور قرآن پڑھتے وقت اسے اچھی آواز کے ساتھ پڑھو ۱؎، جو قرآن کو اچھی آواز سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1337]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3900، ومصباح الزجاجة: 469) وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 355 (1469) (ضعیف)» (اس میں راوی ابورافع، اسماعیل بن رافع ضعیف ومترو ک ہیں، لیکن آخری جملہ «وتغنوا به» صحیح ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، (البخاری 13/ 50 و مسلم (1/545)
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «تغنى» کا لفظ ہے، اور «تغنى» کا معنی گانا ہے، قرآن میں «تغنى» نہیں ہو سکتی، لہذا «تغنى» سے یہ مراد ہو گا کہ باریک آواز سے درد کے ساتھ اس کو پڑھنا بایں طور کہ پڑھنے والے پر اور سننے والے سب پر اثر ہو، اور دلوں میں اللہ کا خوف اور خشوع پیدا ہو، اور تجوید کے قواعد کی رعایت باقی رہے، کلمات اور حروف میں کمی اور بیشی نہ ہو، سفیان بن عیینہ نے کہا: «تغنی بالقرآن» کا یہ معنی ہے کہ قرآن کو دولت لازوال سمجھے، اور دنیا داروں سے غنی یعنی بے پرواہ رہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث الآتي (4196) مختصرًا قال البو صيري: ’’ فيه أبو رافع واسمه: إسماعيل بن رافع،ضعيف متروك ‘‘ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 424
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1337
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ نیز دیگر محققین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم دکتور بشار عواد سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں لکھتے ہیں۔ کہ مذکورہ روایت سنداً تو ضعیف ہے۔ لیکن اس کا آخری جملہ (وَتَغَنَّوْا بِهِ فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِهِ فَلَيْسَ مِنَّا) ”اور قرآن مجید کواچھی آواز سے پڑھو“ صحیح ہے کیونکہ یہی مسئلہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (لَيْسَ مِنَّا مَن لَّمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ) ”جوشخص قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں“ لہٰذا اس جملے کے سوا باقی روایت سنداً ضعیف ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: (سنن ابن ماجة، للدکتور بشا رعواد، حدیث: 1337)
(2) اس حدیث کے آخری جملے (وَتَغَنَّوْا بِهِ فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ) کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے۔ جسے علامہ خطابی نے ذکر کیا ہے۔ لم يتغن بمعنی لم يستغن ہے۔ یعنی جو شخص قرآن مجید پڑھ کر اس کا علم حاصل کرکے طلب دنیا اوردیگر لا یعنی علوم بالخصوص لغو قسم کے شعر وسخن سے بے پرواہ نہ ہوجائے۔ تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (معالم السنن 138/2) مقصد یہ ہے کہ قاری قرآن اور عالم دین کو چاہیے کہ اس شرف کے حاصل ہو جانے پر دنیا کا مال ودولت جمع کرنے اور لغو مشاغل سے بالاتر رہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1337