الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
18. بَابُ : فَضْلِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
18. باب: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
حدیث نمبر: 129
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ أَبَوَيْهِ لِأَحَدٍ غَيْرَ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، فَإِنَّهُ قَالَ لَهُ يَوْمَ أُحُدٍ:" ارْمِ سَعْدُ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے لیے اپنے والدین کو جمع کیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے دن سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: اے سعد! تم تیر چلاؤ، میرے ماں اور باپ تم پر فدا ہوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 129]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجہاد 80 (2905)، الأدب 103 (6184)، المغازي 18 (4058، 4059)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 5 (2411)، سنن الترمذی/المناقب 27 (3755)، (تحفة الأشراف: 10190)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/92، 124، 137، 158) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ فضیلت غزوہ احزاب کے موقع پر زبیر رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہے، اور حدیث میں علی رضی اللہ عنہ نے جو بیان کی وہ ان کے اپنے علم کے مطابق ہے، ملاحظہ ہو: حدیث نمبر (۱۲۳)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

   صحيح البخارييجمع أبويه لأحد غير سعد
   صحيح البخاريجمع أبويه لأحد إلا لسعد بن مالك فإني سمعته يقول يوم أحد يا سعد ارم فداك أبي وأمي
   صحيح البخاريارم فداك أبي وأمي
   صحيح مسلمما جمع رسول الله أبويه لأحد غير سعد بن مالك فإنه جعل يقول له يوم أحد ارم فداك أبي وأمي
   جامع الترمذيارم سعد فداك أبي وأمي
   سنن ابن ماجهارم سعد فداك أبي وأمي

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 129 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث129  
اردو حاشہ:
(1)
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بھی یہ سعادت حاصل ہے، جیسے حدیث 123 میں بیان ہوا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یا تو اس کا علم نہیں ہوا یا حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست یہ الفاظ نہیں سنے، جبکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو یہ الفاظ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں فرمائے گئے۔

(2)
دشمن پر تیر اندازی کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی تلوار سے مقابلہ کرنے کی ہے۔
موجودہ دور میں پھینکنے والے آلات کی بہت اہمیت ہے، خواہ وہ رائفل یا کلاشنکوف کی گولی ہو یا کسی قسم کے توپ یا ٹینک کا گولہ یا میزائل وغیرہ ہوں، ان سب کافروں کے خلاف استعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا باعث ہے، لہذا مسلمانوں کو جہاد کی تیاری کے لیے ہر قسم کا اسلحہ تیار کرنا چاہیے اور اس کا استعمال سیکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 129   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2905  
2905. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے بعد کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کےمتعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہوکہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔ میں نے آپ ﷺ کو ان کے متعلق فرماتے ہوئے سنا: اے سعد!تیر مارو تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2905]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے تیر اندازی کی فضیلت ثابت ہوئی اس طور پر کہ آنحضرتﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی تیر اندازی پر ان کو شاباش پیش فرمائی۔
معلوم ہوا کہ فنون حرب جن میں مہارت پیدا کرنے سے اللہ پاک کی رضا مطلوب ہو بڑی فضیلت اور درجات رکھتے ہیں۔
عصر حاضر کے جملہ آلات حرب میں مہارت کو اسی پر کیا جاسکتا ہے صد افسوس کہ مسلمانوں نے ان نیک کاموں کو قطعاً بھلا دیا جس کی سزا وہ مختلف عذابوں کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2905   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2905  
2905. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے بعد کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کےمتعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہوکہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔ میں نے آپ ﷺ کو ان کے متعلق فرماتے ہوئے سنا: اے سعد!تیر مارو تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2905]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺنے غزوہ خندق کے موقع پر یہی الفاظ حضرت زبیر ؓ کے لیے استعمال کیے تھے۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث 3720)
شاید حضرت علی ؓ کو اس کا علم نہیں ہوسکا۔
اس کلمے سے مراد انھیں دعا دینا اور اپنی رضا مندی کا اظہار کرنا ہے۔

اس حدیث سے تیر اندازی کی فضیلت ثابت ہوئی، وہ اس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو ان کی تیراندازی پر شاباش دی۔
معلوم ہوا کہ فنون حرب میں مہارت پیداکرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہوبڑی فضیلت کا باعث ہیں۔

عصر حاضر کے جملہ آلات حرب میں مہارت کو اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
پھر تیر انداز نے اپنا تحفظ بھی کرنا ہوتا ہے جو ڈھال کے بغیرممکن نہیں۔
اس بنا پر ڈھال کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2905   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4059  
4059. حضرت علی ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو سعد بن مالک ؓ کے سوا کسی کے متعلق یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ آپ نے اپنے والدین کو جمع کیا ہو۔ میں نے اُحد کے دن آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: اے سعد! خوب تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4059]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث میں حضرت سعد بن وقاص ؓ کا بہت بڑا اعزاز بیان ہوا ہے کہ ان کے لیے خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تیرچلاؤ، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
غزوہ خندق کے موقع پر یہی الفاظ آپ نے حضرت زبیر بن عوام ؓ کے متعلق ارشاد فرمائے تھے۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي، صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3720۔
)


حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
شاید حضرت علی ؓ کو اس بات کا علم نہ ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ حضرت زبیر ؓ کے متعلق بھی فرمائے تھے یا ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ اعزاز احد کے دن حضرت سعد ؓ کے علاوہ کسی اور نہیں ملا۔
(فتح الباري: 107/7)

احادیث میں اس واقعے کا سبب بھی بیان ہوا ہے:
حضرت سعد ؓ فرماتے ہیں کہ جب غزوہ احد میں لوگ سخت مصیبت کا شکار ہوئے تو میں ایک طرف ہو گیا (اور دل میں)
کہا:
میں اپنی ذات سے دفاع کروں گا۔
یا نجات پاجاؤں گا۔
یا شہید ہو جاؤں گا۔
اس دوران میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص جس کا چہرہ خون آلود ہے اور مشرکین نے اس کا گھیراؤ کیا ہوا ہے اس نے اپنے ہاتھ میں کنکریاں لیں اور مشرکین کو ماردیں، پھر میرے اور اس شخص کے درمیان حضرت مقداد ؓ آگئے۔
میں نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھنا چاہا تو انھوں نے نے ازخود مجھے کہا:
اے سعد !یہ رسول اللہ ﷺ ہیں اور تجھے بلا رہے ہیں۔
میں وہاں سے اٹھا،گویا مجھے کوئی تکلیف ہی نہیں تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے آگے بٹھایا تو میں نے مشرکین پر تیر برسانے شروع کردیے۔
پھر آپ نے فرمایا:
اے سعد! تیراندازی کرو، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
(فتح الباري: 448/7)
بہر حال حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔
غزوہ احد میں جب کفار نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف چڑھائی کی تو انھوں نے ایسے تیر برسائے کہ ایک کافر بھی رسول اللہ ﷺ کے قریب نہ آسکا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4059