الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
156. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي كَمْ يُكَبِّرُ الإِمَامُ فِي صَلاَةِ الْعِيدَيْنِ
156. باب: عیدین کی نماز میں تکبیرات کی تعداد کتنی ہو گی؟
حدیث نمبر: 1278
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْلَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبَّرَ فِي صَلَاةِ الْعِيدِ سَبْعًا، وَخَمْسًا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید میں سات اور پانچ تکبیریں کہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1278]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 251، (1151)، (تحفة الأشراف: 8728)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/180) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   سنن أبي داوديكبر في الفطر الأولى سبعا ثم يقرأ ثم يكبر ثم يقوم فيكبر أربعا ثم يقرأ ثم يركع
   سنن أبي داودالتكبير في الفطر سبع في الأولى وخمس في الآخرة والقراءة بعدهما كلتيهما
   سنن ابن ماجهكبر في صلاة العيد سبعا وخمسا
   بلوغ المرام‏‏‏‏التكبير في الفطر سبع في الاولى وخمس في الاخرى والقراءة بعدهما كلتيهما

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1278 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،سنن ابن ماجہ1278  
تکبیراتِ عیدین
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (سیدنا) ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے عید الاضحی اور عید الفطر کی نماز پڑھی، آپ نے پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہیں۔ [موطأ امام مالك 1/ 180 ح 435 وسنده صحيح]
آپ یہ ساری تکبیریں قراءت سے پہلے کہا کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/ 173 ح 5702 وسنده صحيح]
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی بارہ تکبیریں ثابت ہیں۔ [احكام العيدين للفريابي: 128، وسنده صحيح]
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عیدین میں تکبیر سات اور پانچ ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/ 175 ح 5720 وسنده حسن]
امام مکحول رحمہ اللہ (تابعی) نے فرمایا: عید الاضحی اور عبد الفطر میں تکبیر قراءت سے پہلے سات اور (دوسری رکعت میں) پانچ ہے۔ [ابن ابي شيبه 2/ 175 ح 5714 ملخصاً وسنده صحيح]
ابو الغصن ثابت بن قیس الغفاری المکی نے فرمایا کہ میں نے عمر بن عبد العزیز (رحمہ اللہ) کے پیچھے عید الفطر کی نماز پڑھی تو انھوں نے پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں پڑھیں۔ [ابن ابي شيبه 2/ 176 ح 5732 وسنده حسن وهو صحيح بالشواهد]
امام ابن شہاب الزہری نے فرمایا: سنت یہ ہے کہ عید الاضحی اور عید الفطر میں پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ [احكام العيدين للفريابي: 106، وسنده حسن لذاته وهو صحيح بالشواهد]
امام مالک کا بھی یہی مذہب ہے۔ دیکھئے: [احكام العيدين: 131، وسنده صحيح]
امام مالک اور امام اوزاعی دونوں نے فرمایا کہ ان تکبیروں کے ساتھ رفع یدین بھی کرنا چاہیے۔ [احكام العيدين: 136۔137، والسندان صحيحان]
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 6 صفحہ 24 اور 25) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
   تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 24   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1152  
´عیدین کی تکبیرات کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہتے تھے پھر قرأت کرتے پھر الله أكبر کہتے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو چار تکبیریں کہتے پھر قرأت کرتے پھر رکوع کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے وکیع اور ابن مبارک نے بھی روایت کیا ہے، ان دونوں نے سات اور پانچ تکبیریں نقل کی ہیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1152]
1152۔ اردو حاشیہ:
یعنی دوسری رکعت میں چار تکبیروں کا ذکر سلمان بن حیان کا وہم ہے، صحیح پانچ ہیں جیسے کہ امام وکیع اور ابن مبارک کا بیان ہے۔ علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی پانچ تکبیرات والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1152   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 395  
´نماز عیدین کا بیان`
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عید الفطر کی نماز کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ ہیں۔ دونوں رکعتوں میں قرآت تکبیرات کے بعد ہے۔
اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے امام بخاری رحمہ اللہ سے اس کی صحت نقل کی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 395»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب التكبيرفي العيدين، حديث:1151، والترمذي في علل الكبير:1 /88.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عیدین کی بارہ تکبیریں زائد ہیں۔
مگر اس کی سند میں بعض حضرات نے کلام کیا ہے کہ اگر جدہ سے عمرو کا دادا محمد بن عبداللہ مراد ہے تو یہ روایت مرسل ہے کیونکہ محمد بن عبداللہ تابعی ہیں اور اگر شعیب کے دادا عبداللہ مراد ہیں تو شعیب کا ان سے سماع ثابت نہیں‘ اس لیے یہ روایت منقطع ہے۔
لیکن یہ بات غلط ہے‘ امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کی تردید کی ہے اور شعیب کا اپنے دادا سے سماع ثابت کیا ہے۔
اور یہاں جدہ سے مراد شعیب ہی کا دادا ہے۔
2. جمہور ائمۂجرح و تعدیل اس سند کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
امام احمد‘ امام علی بن مدینی‘ امام اسحق‘ امام ابوعبیدہ‘ امام بخاری‘ امام دارقطنی اور امام دارمی رحمہم اللہ وغیرہم نے اسے صحیح کہا ہے۔
بلکہ فقہائے اربعہ بھی اس سند سے استدلال کرتے اور اسے صحیح کہتے ہیں۔
3.امام ترمذی رحمہ اللہ سے جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔
اس کے بارے میں صاحب سبل السلام نے کہا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں عمرو بن شعیب کی روایت ہی نقل نہیں کی‘ معلوم نہیں کہ حافظ ابن حجر نے امام ترمذی رحمہ اللہ کے اس قول کو کہاں سے نقل کیا ہے؟ میں نے اس کے متعلق تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ روایت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی العلل الکبیر میں نقل کی ہے۔
حافظ زیلعی نے نصب الرایہ: ۲ /۲۱۷ میں بھی اسی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔
4.اس حدیث کی تائید حضرت عائشہ‘ حضرت سعد‘ حضرت ابن عباس اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی روایات سے بھی ہوتی ہے مگر ان میں کلام ہے۔
اکثر صحابہ و تابعین اور فقہائے مدینہ کے علاوہ امام احمد اور امام شافعی ; وغیرہ کا بھی اسی حدیث کے مطابق عمل ہے۔
5. شارح ترمذی‘ علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ کا اس سلسلے میں مستقل رسالہ القول السدید فیما یتعلق بتکبیرات العید قابل دید ہے۔
6. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بعض دیگر فقہائے کوفہ چھ تکبیروں کے قائل ہیں۔
تین پہلی رکعت میں قراء ت سے پہلے اور تین دوسری رکعت میں رکوع میں جانے سے پہلے‘ مگر اس بارے میں کوئی صحیح مرفوع روایت ثابت نہیں۔
جمہور صحابہ و تابعین کا عمل ہی راجح اور دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔
7. تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔
امام ابن حزم اس کی بابت لکھتے ہیں: «لَمْ یَصِحَّ قَطُّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَفَعَ فِیہِ یَدَیْہِ» (المحلی:۵ / ۸۳‘ ۸۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان تکبیروں میں رفع الیدین کیا ہے۔
محقق عصر شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ مسنون نہیں ہے۔
(إرواء الغلیل: ۳ / ۱۱۴) تاہم تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی بابت ائمہ کے اقوال ضرور ملتے ہیں۔
عطاء بن ابی رباح سے پوچھا گیا: کیا امام نماز عیدین میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں‘ وہ رفع الیدین کرے اور لوگ بھی اس کے ساتھ ہاتھ اٹھائیں۔
(المصنف لعبد الرزاق: ۳ /۲۹۷) نیز امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تکبیرات عیدین کے موقع پر ہاتھ اٹھانے چاہییں اگرچہ میں نے اس کے متعلق کچھ نہیں سنا۔
(الفریابي بحوالہ إرواء الغلیل: ۳ / ۱۱۳) اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ تکبیرات عیدین میں ہاتھ اٹھانے چاہییں۔
(الأم: ۱ / ۲۳۷) لہٰذا ان اقوال کی روشنی میں اگر کوئی تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کرتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے اور کوئی نہیں کرتا تو اس کا بھی جواز ہے۔
اس میں تشدد نامناسب ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 395   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابوداود 1151  
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اور دونوں میں قرأت تکبیر (زوائد) کے بعد ہے۔ [ابوداود 1151]
تکبیراتِ عیدین میں رفع الیدین کا ثبوت
امام اہل سنت، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفی 241ھ) فرماتے ہیں:
«حدثنا يعقوب: حدثنا ابن أخي ابن شهاب عن عمه: حدثني سالم بن عبد الله أن عبدالله قال: كان رسول الله ﷺ إذا قام إلى الصلوة يرفع يديه، حتي إذا كا نتا حذو منكبيه كبّر، ثم إذا أرادأن يركع رفعهما حتي يكونا حذو منكبيه، كبر وهما كذلك، ركع، ثم إذا أراد أن يرفع صلبه رفعهما حتي يكوناحذو منكبيه، ثم قال: سمع الله لمن حمد ه، ثم يسجد، ولا يرفع يديه فى السجود، ويرفعهما فى كل ركعة وتكبيرة كبّرهاقبل الركوع، حتي تنقضي صلاته»
رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تورفع یدین کرتے حتیٰ کہ آپ کے ہاتھ آپ کے کندھوں کے برابر ہو جاتے، آپ (ﷺ) تکبیرکہتے، پھر جب آپ رکوع کا ارادہ کرتے تو رفع یدین کرتے حتی کہ آپ کے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر ہوتے۔ آپ تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ اسی طرح ہوتے۔ آپ ﷺ رکوع کرتے، پھر جب آپ اپنی پیٹھ اُٹھانے کا ارادہ کرتے تورفع یدین کرتے حتی کہ آپ کے ہاتھ کندھوں کے برابر ہوتے۔ پھر آپ (ﷺ) فرماتے: «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهٗ» پھر آپ سجدہ کرتے اور سجدوں میں رفع یدین نہ کرتے۔ آپ ہر رکعت میں اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہوجاتی۔
[مسند احمد ج 2 ص 133، 134ح 6175 والموسوعة الحديثيه ج 10 ص 315]
یہ سند حسن لذاتہ، صحیح لغیرہ ہے۔
شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
«هذا سند صحيح على شرط الشيخين»
یہ سند بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
[ارواء الغليل ج 3 ص 113 ح 640]
اسے امام عبد اللہ بن علی بن الجارود النیسا بوری رحمہ اللہ (متوفی 307ھ) نے اپنی کتاب المنتقٰی میں یعقوب بن ابراہیم بن سعد کی سند سے روایت کیا ہے۔ (ح 178)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (متوفی 748ھ) فرماتے ہیں:
«كتاب المنتقي فى السنن مجلد واحد فى الأحكام، لا ينزل فيه عن رتبة الحسن أبدًا إلا فى النادرفي أحاديث يختلف فيها اجتهاد النقاد»
کتاب المنتقٰی فی السنن، احکام میں ایک مجلد ہے، اس کی حدیثیں حسن کے درجے سے کبھی نہیں گرتیں، سوائے نادر احادیث کے جن میں ناقدین کی کو شش میں اختلاف ہوتا ہے۔
[سير اعلام النبلاء ج 14 ص 239]
اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
«وأورد هذا الحديث ابن الجارودفي المنتقي فهو صحيح عنده فإنه لا يأتى إلا بالصحيح كما صرح به السيوطي فى ديباجة جمع الجوامع» [بوادرالنوادر ص 135]
(ترجمہ از ناقل: ابن الجارود نے یہ حدیث منتقی میں درج کی ہے۔ پس یہ ان کے نزدیک صحیح ہے کیو نکہ وہ صرف صحیح روایتیں ہی لاتے ہیں جیسا کہ سیوطی نے جمع الجوامع کے دیبا چہ میں لکھا ہے)
یعقوب بن ابراہیم کی سند سے یہی روایت امام دارقطنی (متوفی 385ھ) نے بیان کی ہے۔ [سنن الدارقطني 1/ 289 ح 1104]
اب اس حدیث کے راویوں کی توثیق پیشِ خدمت ہے:
1: یعقوب بن ابراہیم بن سعد: ثقۃ فاضل / من رجال الستۃ (تقریب التہذیب:7811)
[ابوداود 1151]
2: محمد بن عبد اللہ بن مسلم، ابن اخی الزہری: صدوق حسن الحدیث، وثقہ الجمہور / من رجال الستۃ
ابن اخی الزہری کے بارے میں مکمل جرح و تعدیل کے لئے اصل مضمون دیکھیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک ابن اخی الزہری ثقہ وصدوق، صحیح الحدیث وحسن الحدیث ہیں۔ یاد رہے کہ ثقہ وصدوق راوی کی جن روایات میں وہم وخطاء بذریعہ محدثین ثابت ہو جائے تو وہ روایتیں مستثنیٰ ہو کر ضعیف ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ابن اخی الزہری کی فا نتھی الناس عن القرأۃ معہ والی روایت کی سند میں غلطی اور وہم ہے۔ دیکھئے مسند احمد (5/ 345 ح 22922 الموسو عۃ الحدیثیہ مع التخریج) وکتاب القراءت للبیہقی (325، 326)
فائدہ: ابن اخی الزہری کی عن الزہری عن سالم عن ابیہ والی سند صحیح بخاری (5574) وصحیح مسلم (4/1471) میں موجود ہے۔
تنبیہ: ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین والی روایت مذکورہ میں ابن ا خی الزہری کی متابعت محمد بن الولید الزبیدی نے کر رکھی ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
3: محمد بن مسلم الزہری: متفق علی جلالتہ واتقانہ / من رجال الستۃ (التقریب: 6296)
امام زہری نے سماع کی تصریح کر دی ہے لہٰذا اس روایت میں تدلیس کا الزام مردود ہے۔
4: سالم بن عبد اللہ بن عمر: أحد الفقہاء السبعۃ وکان ثبتًا عابدًا فاضلاً /من رجال الستۃ (التقریب: 2176)
5: عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ: صحابی مشہور /من رجال الستۃ (التقریب: 3490)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت ابن اخی الزہری کی وجہ سے حسن لذاتہ (یعنی حجت ومقبول) ہے۔
ابن اخی الزہری کی متابعت
ابن اخی الزہری رحمہ اللہ رفع یدین والی اس روایت میں تنہا راوی نہیں ہیں بلکہ (محمد بن الولید) الزبیدی (ثقۃ ثبت من کبار أصحاب الزھري / من رجال البخاري ومسلم وأبي داودوالنسائي وابن ماجہ، التقریب: 6372) نے ان کی متابعت تامہ کر رکھی ہے لہٰذا ابن اخی الزہری پر اس روایت میں اعتراض سرے سے فضول ہے۔ والحمدللہ
الزبیدی کی متابعت والی روایت سنن ابی داود (722) سنن الدار قطنی (1/ 288 ح 1098) والسنن الکبری للبیہقی (3/292، 293) میں موجود ہے۔
الزبیدی سے یہ روایت بقیہ بن الولید نے بیان کی ہے اور بقیہ سے ایک جماعت نے اسے روایت کیا ہے۔
ابن الترکمانی نے مخالفت برائے مخالفت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بقیہ بن ولید پر ابن حبان، ابو مسہر اور سفیان بن عیینہ کی جرح نقل کی ہے (الجوہر النقی3/ 292، 293) جس کا تفصیلی جواب دیکھنے کے لئے اصل مضمون دیکھیں۔
تنبیہ: اگر کوئی یہ کہے کہ امام زہری کے دوسرے شاگرد یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بیان نہیں کرتے ہیں۔ تو عرض ہے کہ الزبیدی (ثقہ) اور ابن اخی الزہری (صدوق) کا یہ روایت بیان کرنا حجت ہونے کے لئے کافی ہے۔ اگر ایک ثقہ و صدوق راوی ایک روایت سند و متن میں زیادت کے ساتھ بیان کرے، جب کہ دوسرے بہت سے ثقہ و صدوق راوی یہ زیادت بیان نہ کریں تو اسی زیادت کا اعتبار ہوتا ہے۔ (والزیادۃ من الثقۃ مقبولۃ) نیز دیکھئے اصل مضمون۔
متن کی بحث
ابن التر کمانی و بعض الناس نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس روایت میں عیدین کا طریقہ مذکور نہیں ہے بلکہ عام نماز کی طرح ہے۔
عرض ہے کہ اس روایت میں درج ذیل مقامات پر رفع یدین کی صراحت موجود ہے:
1- تکبیر تحریمہ
2- رکوع سے پہلے
3- رکوع کے بعد
4- ہر رکعت میں
5- رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں (دیکھئے یہی مضمون، شروع)
حدیث صحیح کے الفاظ دوبارہ پیشِ خدمت ہیں:
ویرفعھما فی کل رکعۃ وتکبیرۃ کبّرھا قبل الرکوع حتی تنقضی صلا تہ
اور آپ (ﷺ) ہر رکعت میں اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے، یہاں تک کہ آ پ ﷺ کی نماز پوری ہو جاتی۔
(مسند احمد 2/ 134)
اب سوال یہ ہے کہ عیدین کی تکبیرات رکوع سے پہلے ہوتی ہیں یا رکوع کے بعد ہوتی ہیں؟ اگر پہلے ہوتی ہیں تو ضرور بالضرور اس حدیث کے عموم میں شامل ہیں۔
امام بیہقی نے بقیہ بن الولید کی حدیث کو تکبیرات عید اور باب السنۃ فی رفع الیدین کلماکبر للرکوع دونوں جگہ ذکر کیا ہے۔ (السنن الکبریٰ 3/ 292، 2/ 83)
معلوم ہوا کہ امام بیہقی کے نزدیک اس حدیث سے رفع یدین عند الرکوع اور رفع یدین فی العیدین دونوں جگہوں پر ثابت ہے۔ والحمدللہ
ایک اہم بات
ہم بحمداللہ اہلِ حدیث یعنی سلفی اہلِ حدیث ہیں۔ قرآن وحدیث واجماع کو حجت سمجھتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا وہی مفہوم معتبر سمجھتے ہیں جو سلف صالحین سے ثابت ہے۔ آثار سلف صالحین سے استدلال اور اجتہاد کو جائز سمجھتے ہیں۔
حدیث مذکورسے درج ذیل سلف صالحین نے تکبیرات عیدین پر استدلال کیا ہے:
1- امام بیہقی رحمہ اللہ (السنن الکبری 3/ 292، 293 باب رفع الیدین فی تکبیر العید)
2- امام محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری (التلخیص الحبیر 2/ 86 ح 692)
سلف صالحین میں سے کسی نے بھی اس استدلال کا رد نہیں کیا لہٰذا محدث مبارکپوری اور محدث البانی رحمہما اللہ کا نظریہ، سلف صالحین کے استدلال کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
مولوی محمد افضل اثری (صاحب مکتبۃ السنۃ کراچی) لکھتے ہیں:
جیسا کہ امام بیہقی اور امام (ابن) منذر کا استدلال ذکر کرنے کے بعد شیخ الاسلام ابن حجر العسقلانی تلخیص الحبیر 145 بحوالہ المرعاۃ 2/ 341 لکھتے ہیں:
والأولی عندی ترک الرفع لعدم ورود نص صریح فی ذلک، ولعدم ثبوتہ صریحاً بحدیث مرفوع صحیح۔
یعنی میرے نزدیک اولی یہ ہے کہ رفع یدین درزوائد تکبیرات نہ کیا جائے کیونکہ اس سلسلہ میں صریح قسم کی نص وارد نہیں ہے اور نہ ہی صراحتاً مرفوع صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے۔
یہی بات علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری، مولاناعبیداللہ مبارکپوری رحمہم اللہ تعالیٰ، علامہ البانی حفظہ اللہ نے ذکر کی ہے کہ اس سلسلہ میں کسی قسم کی صریح حدیث ثابت ووارد نہیں ہے
(ضمیمۃ ہدیۃ المسلمین ص 97 طبعہ غیر شرعیہ)
اس بیان میں محمد افضل اثری صاحب نے غلط بیانی کرتے ہوئے حافظ ابن حجر العسقلانی کی طرف وہ قول منسوب کر دیا ہے جس سے حافظ ابن حجر بالکل بَری ہیں۔ دیکھئے التلخیص الحبیر (ج 2 ص 86 ح 692)
اس صریح غلط بیانی کا دوسرا نام کذب و افتراء ہے۔ صاحب مرعاۃ المفاتیح (الشیخ عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ) کے قول کو حافظ ابن حجر کا قول بنا دینا اگر کذب و افتراء نہیں تو پھر کیاہے؟
یاد رہے کہ مولانا شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری، مولانا عبیداللہ مبارکپوری اور شیخ البانی رحمہم اللہ کے اقوال و تحقیقات درتکبیراتِ عیدین، امام عطاء بن ابی رباح، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ سلف صالحین کے مقابلے میں اور مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
خلاصۃ التحقیق:
اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ابن اخی الزہری اور بقیہ والی روایت صحیح ہے۔ اور اس سے تکبیرات عیدین میں رفع یدین پر استدلال بالکل صحیح ہے۔ والحمدللہ
سلف صالحین کے آثار
اب تکبیرات عیدین میں رفع یدین کی مشروعیت پر سلف صالحین کے آثار پیشِ خدمت ہیں:
1- امام عبد الرحمٰن بن عمرو الاوزاعی الشامی رحمہ اللہ: ولید بن مسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:
قلت للأوزاعی: فأرفع یدي کرفعي فی تکبیرۃ الصلوۃ؟ قال: نعم، ارفع یدیک مع کلھن
میں نے اوزاعی سے کہا: کیا میں (عید میں) رفع یدین کروں، جیسے میں نماز میں رفع یدین کرتاہوں؟
انھوں نے کہا: جی ہاں تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔
(احکام العیدین للفریابی: 136 وإسنادہ صحیح)
2- امام مالک بن انس المدنی رحمہ اللہ: ولید بن مسلم سے روایت ہے:
سألت مالک بن أنس عن ذلک فقال: نعم، ارفع یدیک مع کل تکبیرۃ ولم أسمع فیہ شیئًا
میں نے مالک بن انس سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: جی ہاں، ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرو، اور میں نے اس میں کچھ بھی نہیں سنا۔
(احکام العیدین:137، وإسنادہ صحیح)
تنبیہ 1: امام مالک کا ولم أسمع فیہ شیئًا دو باتوں پر ہی محمول ہے۔
اول: میں نے اس عمل کے بارے میں کوئی حدیث نہیں سنی۔
دوم: میں نے اس عمل کے مخالف کوئی حدیث نہیں سنی۔
اول الذکر کے بارے میں عرض ہے کہ اگر امام مالک نے بقیہ بن الولید اور ابن اخی الزہری کی حدیث اور عطاء بن ابی رباح تابعی کا اثر نہیں سنا تو یہ بات ان دلائل کے ضعیف ہو نے کی دلیل نہیں ہے۔
تنبیہ 2: مجموع شرح المہذب للنووی (5/ 26) الاوسط لابن المنذر (4/ 282) اور غیر مستند کتاب المدونہ (1/ 169) وغیرہ میں اس اثر کے خلاف جو کچھ مروی ہے وہ بے سند وبے اصل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
3- امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ۔ دیکھئے کتاب الام (ج 1 ص 237)
4- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ۔ دیکھئے مسائل الامام احمد، روایۃ ابی داود (ص 60)
5- امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ۔ دیکھئے تاریخ ابن معین (روایۃ الدوری: 2284)
معلوم ہوا کہ مکہ، مدینہ اورشام وغیرہ میں سلف صالحین تکبیرات عیدین میں رفع یدین کے قائل و فاعل تھے۔ ان کے مقابلے میں محمد بن الحسن الشیبانی (مجروح عند الجمہور۔ نیز دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی 4/ 52 وسندہ صحیح، الحدیث حضرو: 7 ص 17) سے تکبیرات عیدین میں رفع یدین کی مخالفت مروی ہے۔ دیکھئے کتاب الاصل (1/ 374، 375) والاوسط لابن المنذر (4/ 282)
سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ وہ تکبیرات مذکورہ میں رفع یدین کے قائل نہیں تھے۔ (مجموع 5/ 26 والاوسط 4/ 282) یہ قول بلا سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
بعض حنفیوں نے بغیر کسی سندمتصل کے ابو یوسف قاضی سے تکبیراتِ عید میں رفع یدین نہ کرنا نقل کیا ہے۔ یہ نقل دو وجہ سے مردود ہے۔
1- بے سند ہے۔
2- قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم کے بارے میں اما م ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ
ألا تعجبون من یعقوب، یقول علي مالا أقول
کیا تم لوگ یعقوب (ابو یوسف) پر تعجب نہیں کرتے، وہ میرے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو میں نہیں کہتا۔
(التاریخ الصغیر للبخاری ج 2 ص 210 وفیات:عشر إلی تسعین ومائۃ / وإسنادہ حسن ولہ شواہد فالخبر صحیح انظر تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء ص 124 ت 425)
معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ اپنے شاگرد قاضی ابو یوسف کو کذا ب سمجھتے تھے۔
تنبیہ: ایک روایت میں آیا ہے کہ عطاء بن ابی رباح المکی رحمہ اللہ زوائد تکبیراتِ عید میں رفع یدین کے قائل تھے۔ (مصنف عبدالرزاق 3/ 297 ح 5699)
اس روایت کے مرکزی راوی عبدالرزاق بن ہمام مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے۔
سفیان ثوری مدلس نے عبدالرزاق کی متابعت کر رکھی ہے۔ (دیکھئے السنن الکبری للبیہقی 3/ 293)
یہ روایت ان دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔
اختتام بحث:
تکبیرات عیدین میں رفع یدین کرنا بالکل صحیح عمل ہے۔ محدث مبارکپوری، شیخ البانی رحمہما اللہ اور بعض الناس کا اس عمل کی مخالفت کرنا غلط اور مردود ہے۔
……………… اصل مضمون ………………
اصل اور مکمل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 163 تا 179) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
   تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 163   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابوداود 1151  
عید میں تکبیرات کی تعداد
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «التكبير فى الفطر سبع فى الأ و لٰي وخمس فى الآخرة والقراءة بعد هما كلتيهما» عید الفطر کے دن پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیریں ہیں اور دونوں رکعتوں میں قرأت ان تکبیروں کے بعد ہے۔ [ابوداود 1 / 170 ح 1151]
اس حدیث کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: «هو صحيح» [العلل الكبير للترمذي ج1 ص 288]
اسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام علی بن المدینی نے بھی صحیح کہا ہے۔ [التلخيص الحبير 2 /84]
«عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده» کے حجت ہونے پر میں نے مسند الحمیدی کی تخریج میں تفصیلی بحث لکھی ہے۔ اس روایت کے دیگر شواہد کے لیے ارواء الغلیل [3/ 106 تا 113] وغیرہ دیکھیں۔
نافع فرماتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے عید الاضحی اور عید الفطر کی نماز پڑھی۔ انہوں نے پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ [موطأ امام مالك 1/ 180 ح 435]
اس کی سند بالکل صحیح اور بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔
شعیب بن ابی حمزہ عن نافع کی روایت میں ہے: «وهي السنة» اور یہ سنت ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي ج 3 ص288]
امام مالک فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں یعنی مدینہ میں اسی پر عمل ہے۔ [موطأ: 1/ 180]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی عیدین کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ [شرح معاني الآثار للطحاوي 4/ 345]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه ج2 ص 173 ح5701]
ابن جریج کے سماع کی تصریح احکام العیدین للفریابی [ص 176ح128] میں موجود ہے، اس کے دیگر صحیح شواہد کے لیے ارواء الغلیل [ج 3 ص111] وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
امیر المؤمنین سیدنا عمر بن عبدالعزیز بھی پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه ج2 ص 176ح، احكام العيدين ص 171، 172ح 117]
اس کی سند صحیح ہے۔ سواطع القمرين [ص 172] باب رفع یدین (14) کے تحت یہ باسند حسن گزر چکا ہے کہ جو شخص رفع یدین کرتا ہے اسے ہر انگلی کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے۔ [ابوداود 1 / 111 ح 722، مسند احمد 2 / 134 ح 6175]
اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ [ارواء الغليل ج 3 ص113]
امام ابن المنذر اور امام بیہقی نے تکبیرات عیدین میں رفع یدین کے مسئلے پر اس حدیث سے حجت پکڑی ہے۔ [التلخيص الحبيرج2 ص 86]
اور یہ استدلال صحیح ہے کیونکہ عموم سے استدلال کرنا بالاتفاق صحیح ہے۔ جو شخص رفع یدین کا منکر ہے وہ اس عام دلیل کے مقابلے میں خاص دلیل پیش کرے۔ یاد رہے کہ تکبیرات عیدین میں عدم رفع یدین والی ایک دلیل بھی پورے ذخیرۂ حدیث میں نہیں ہے۔
. . . اصل مضمون کے لئے دیکھیں . . .
تحقیقی مقالات جلد 1 صفحہ 55 ------------
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (سیدنا) ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے عید الاضحی اور عید الفطر کی نماز پڑھی، آپ نے پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہیں۔ [موطأ امام مالك 1/ 180 ح 435 وسنده صحيح]
آپ یہ ساری تکبیریں قرأت سے پہلے کہا کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 173/2 ح 5702 وسنده صحيح]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی بارہ تکبیریں ثابت ہیں۔ [احكام العيدين للفريابي: 128، وسنده صحيح]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عیدین میں تکبیر سات اور پانچ ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/ 175 ح 5720 وسنده حسن]
امام مکحول رحمہ اللہ (تابعی) نے فرمایا: عید الاضحی اور عید الفطر میں تکبیر قرأت سے پہلے سات اور (دوسری رکعت میں) پانچ ہے۔ [ابن ابي شيبه 2/ 175 ح 5714 ملخصاً وسنده صحيح]
ابوالغصن ثابت بن قیس الغفاری المکی نے فرمایا: میں نے عمر بن عبد العزیز (رحمہ اللہ) کے پیچھے عید الفطر کی نماز پڑھی تو انہوں نے پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں پڑھیں۔ [ابن ابي شيبه 2/ 176 ح 5732 وسنده حسن وهو صحيح بالشواهد]
امام ابن شہاب الزہری نے فرمایا: سنت یہ ہے کہ عید الاضحی اور عید الفطر میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ [احكام العيدين للفريابي: 106، وسنده حسن لذاته وهو صحيح بالشواهد]
امام مالک کا بھی یہی مذہب ہے۔ [احكام العيدين: 131، وسنده صحيح]
امام مالک اور امام اوزاعی دونوں نے فرمایا کہ ان تکبیروں کے ساتھ رفع یدین بھی کرنا چاہیے۔ [احكام العيدين: 136۔ 137، والسنداًن صحيحان]
. . . اصل مضمون کے لئے دیکھیں . . .
تحقیقی مقالات جلد 6 صفحہ 24
   تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 55