شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ انہوں نے کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: کعب بن مرہ! آپ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کیجئیے اور احتیاط برتئے، تو انہوں نے کہا: ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ سے بارش مانگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا: «اللهم اسقنا غيثا مريئا مريعا طبقا عاجلا غير رائث نافعا غير ضار»”اے اللہ! ہم پر اچھے انجام والی، سبزہ اگانے والی، زمین کو بھر دینے والی، جلد برسنے والی، تھم کر نہ برسنے والی، فائدہ دینے والی اور نقصان نہ پہنچانے والی بارش برسا“ کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابھی نماز جمعہ سے ہم فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ بارش ہونے لگی اور مسلسل ہوتی رہی، بالآخر پھر لوگ آپ کے پاس آئے، اور بارش کی کثرت کی شکایت کی اور کہا اللہ کے رسول! مکانات گر گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا فرمائی «اللهم حوالينا ولا علينا»”اے اللہ! بارش ہمارے اردگرد میں ہو ہم پر نہ ہو“، کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا تھا کہ بادل دائیں اور بائیں پھٹنے لگا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1269]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11165، ومصباح الزجاجة: 441، 443)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/235، 236) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء: 2/145)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال أبو داود (3967): ’’ سالم لم يسمع من شرحبيل،مات شرحبيل بصفين ‘‘ فالسند منقطع و لبعض الحديث شواھد صحيحة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 421
اللهم اسقنا غيثا مريئا مريعا طبقا عاجلا غير رائث نافعا غير ضار قال فما جمعوا حتى أجيبوا قال فأتوه فشكوا إليه المطر فقالوا يا رسول الله تهدمت البيوت فقال اللهم حوالينا ولا علينا قال فجعل السحاب ينقطع يمينا وشمالا
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1269
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حدیث روایت کرنا اور علماء سے حدیث سنانے کی درخواست کرنا مستحسن ہے۔
(2) عالم کو حدیث بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ غلطی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے نہ فرمائی ہو۔ اس کے نتیجے میں ممکن ہے ایسی بات کوشرعی حکم سمجھ لیا جائے۔ جو حقیقت میں شرعی حکم نہیں۔
(3) نیک آدمی سے دعا کی درخواست کرنا درست ہے۔ خواہ دعا کسی انفرادی معاملہ سے تعلق رکھتی ہو یا کسی اجتماعی مسئلہ سے متعلق ہو۔
(4) جب کسی سے دعا کی درخواست کی جائےتو اسے چاہیے کہ دعا کردے انکار نہ کرے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی افضل وقت میں دعا کرنے کی نیت سے وقتی طور پردعا کو موخر کردیا جائے۔ جس طرح حضرت یعقوب نے علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تھا۔ ﴿سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾(یوسف: 98) ”میں جلد ہی تمھارے لیے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا۔ وہ بہت بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔“
(5) نماز استسقاء پڑھے بغیر بھی دعا کرنا جائز ہے۔
(6) جب بارش اتنی زیادہ ہوجائے کہ تکلیف کا باعث بننے لگے تو بارش رکنے کی دعا کرنا بھی درست ہے۔ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ بارش رحمت ہے۔ اس لئے ر حمت ختم ہونے کی دعا نہ کی جائے کیونکہ جس طرح ایک وقت بارش کا نزول رحمت ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرے وقت میں بارش کا رک جانا بھی ر حمت ہوسکتا ہے۔
(7) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا فوراً قبول ہوجانا رب کی رحمت بھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل اورمعجزہ بھی۔
(8) بارش مانگنے کےلئے حدیث میں مذکور دعا کا پڑھنا زیادہ برکت کا باعث ہے۔ اوراس کی قبولیت کی زیادہ امید ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1269