ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازوں سے منع فرمایا، ایک فجر کے بعد نماز پڑھنے سے سورج نکلنے تک، دوسرے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے سورج ڈوب جانے تک ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1248]
وضاحت: ۱؎: مکروہ اوقات میں سے اس حدیث میں دو وقت، مذکور ہیں اور دوسری حدیث میں دیگر تین اوقات مذکور ہیں، ایک سورج نکلنے کے وقت، دوسرے سورج ڈوبنے کے وقت، تیسرے ٹھیک دوپہر کے وقت، علماء کا اس مسئلہ میں بہت اختلاف ہے، دلائل متعارض ہیں، اور اہل حدیث نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ان اوقات میں بلاضرورت اور بلاسبب اور ضرورت سے جیسے طواف کے بعد دو رکعت یا تحیۃ المسجد کی سنت اور واجب کی قضا جیسے وتر یا فجر یا ظہر کے دو رکعت کی قضا ان اوقات میں درست اور صحیح ہے، اسی طرح مکہ مستثنیٰ ہے، وہاں ہر وقت نماز صحیح ہے، اسی طرح جمعہ کی نماز مستثنیٰ ہے اور وہ ٹھیک دوپہر کے وقت بھی صحیح ہے۔
نهى النبي عن الملامسة والمنابذة وعن صلاتين بعد الفجر حتى ترتفع الشمس وبعد العصر حتى تغيب وأن يحتبي بالثوب الواحد ليس على فرجه منه شيء بينه وبين السماء وأن يشتمل الصماء
نعم إذا صليت الصبح فدع الصلاة حتى تطلع الشمس فإنها تطلع بقرني الشيطان ثم صل فالصلاة محضورة متقبلة حتى تستوي الشمس على رأسك كالرمح فإذا كانت على رأسك كالرمح فدع الصلاة فإن تلك الساعة تسجر فيها جهنم وتفتح فيها أبوابها حتى تزيغ الشمس عن حاجبك الأيمن فإذا زال
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1248
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) فجر اور عصر سے مراد فجرکی فرض نماز اورعصر کی فرض نماز ہے۔ البتہ جو شخص فجر کی فرض نماز باجماعت میں شامل ہو جبکہ پہلے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں۔ تو وہ فرض نماز کے بعد چھوٹی ہوئی سنتیں پڑھ سکتا ہے۔ دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 154، 155)
(2) اگر بھولے سے کوئی نماز چھوٹ جائے اور وہ مکروں اوقات میں یاد آئے تو اسے اسی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 696، 695)
(3) بعض علماء نے سببی اور غیر سببی نماز کا فرق کیا ہے۔ کہ جس نماز کا سبب ان اوقات میں پیدا ہوا ہو وہ نماز مکروہ اوقات میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مثلا تحیة المسجد، طواف کی دو رکعتیں، نماز جنازہ وغیرہ۔ دوسری نمازیں ان اوقات میں نہیں پڑھی جایئں گی۔ مثلا مطلق نوافل۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1248
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 197
´نماز عصر اور نماز فجر پڑھنے کے بعد مطلق نوافل ممنوع ہیں` «. . . عن ابى هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، وعن الصلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد، سورج کے غروب ہونے تک (نفل) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور صبح (کی نماز) کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک (نفل) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 197]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 845، من حديث ما لك به .]
تفقه: ➊ نماز عصر اور نماز فجر پڑھنے کے بعد مطلق نوافل ممنوع ہیں، تاہم ان اوقات میں فوت شدہ فرائض اورسبب والی نماز میں پڑھنا جائز ہے۔ مثلاً نماز جنازہ وغیرہ۔ اسی طرح عصر کے بعد کی دو رکعتیں بھی جائز ہیں جیسا کہ بعض احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ رکعتیں نہ پڑھی جائیں جیسا کہ دوسری احادیث و آثار سے ثابت ہوتا ہے۔ ➋ صبح کی نماز کے بعد، اگریہ کی پہلی دو سنتیں رہ گئی ہوں تو فورا پڑھنا جائز ہے۔ جیسا کہ سیدنا قیس بن فہد رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ نیز دیکھئے: [صحيح ابن خزيمه 164/2ح1161، صحيح ابن حبان الاحسان84/4 ح 2462، والمستدرك 274/1، 275 ح 1017، وصححه الحاكم ووافقه الذهبي] ➌ مشہور حدیث ہے کہ جس نے سورج کے طلوع ہونے سے پہلے کی ایک رکعت پائی تو اس نے صبح کی نماز پالی اور جس نے سورج کے غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پائی تو اس نے عصر کی نماز پالی۔ دیکھئے: [الموطأ ح169، البخاري 579، ومسلم 608]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 96
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 562
´فجر کے بعد نماز سے ممانعت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، اور فجر کے بعد (بھی) یہاں تک کہ سورج نکل آئے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 562]
562 ۔ اردو حاشیہ: نماز سے نفل نماز مراد ہے، فرائض اور فوت شدہ نماز کی قضا ان اوقات میں درست ہے۔ مزید دیکھیے: حدیث: 519 اور اس کا فائدہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 562
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1252
´جن اوقات میں نماز مکروہ ہے ان کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! میں آپ سے ایک ایسی بات پوچھ رہا ہوں جسے آپ جانتے ہیں میں نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کیا ہے؟“ صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: رات اور دن میں کوئی وقت ایسا بھی ہے جس میں نماز مکروہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، جب تم نماز فجر پڑھ لو تو نماز سے رکے رہو یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اس لیے کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، پھر نماز پڑھو اس میں فرشتے حاضر ہوں گے اور وہ قبول ہو گی، یہاں تک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1252]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) تین اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ صبح کی نماز کے بعد سورج کے طلوع ہوجانے تک، دوپہر کوجب سورج سر پر ہوتا ہے اورعصر کے بعد سورج غروب ہوجانے تک۔
(2) سورج کے دائيں طرف ڈھل آنے کا مطلب مغرب کی طرف جھک جانا ہے۔ کیونکہ مدینہ شریف سےکعبہ شریف جنوب کی طرف ہے۔ اس لئے مشرق نمازی سے بایئں طرف اور مغرب کی جہت دایئں طرف ہوتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1252
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5819
5819. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بیع منابذہ سے منع فرمایا اور آپ نے دو اوقات میں نماز پڑھنے سے بھی منع فرمایا: نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کے بعد سورج ٖغروب ہونے تک اور اس سے بھی منع فرمایا کہ کوئی شخص صرف ایک کپڑا جسم پر لپیٹ کر اور گٹھنے اٹھا کر اس طرح بیٹھ جائے کہ اس کی شرمگاہ پر زمین و آسمان کے درمیان کوئی چیز نہ ہو اور اشتمال صماء سے بھی منع فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5819]
حدیث حاشیہ: ”صماء“ اس طرح چادر اوڑھنے کو کہتے ہیں کہ چادر کو داہنی طرف سے لے کر بائیں شانے پر ڈالا جائے اور پھر وہی کنارہ پیچھے سے لے کر داہنے شانے پر ڈال لیا جائے اور اس طرح چادر میں دونوں شانوں کو لپیٹ لیا جائے۔ اشتمال صماء کا مفہوم یہ ہے کہ صرف جسم پر ایک چادر ہو اور اس کے سوا کوئی دوسرا کپڑا نہ ہو۔ اس صورت میں بیٹھتے وقت ایک کنارہ اٹھانا پڑتا تھا اور اس سے شرمگاہ کھل جاتی تھی۔ بیع ملامسہ یہ ہے کہ جس کپڑے کو خرید نا ہو بس اسے چھو لے رات کو یا دن کو اور الٹ کر نہ دیکھنے کی شرط ہوئی ہو اور بیع منابذہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کی طرف اپنا کپڑا پھینک دے بس بیع پوری ہوگئی (یہی شرط ہوئی ہو) یہ دونوں شکل دھوکے سے خالی نہیں اسی لیے منع کیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5819
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:588
588. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے دو (وقت) نمازوں سے منع فرمایا ہے: فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:588]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ اس عنوان کے تحت حدیث ابو ہریرہ ؓ لا کر غالباً یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حکم امتناعی کے اعتبار سے تحری اور عدم تحری میں کوئی فرق نہیں۔ چونکہ حدیث میں لفظ تحری آگیا تھا، اس لیے اس پرعنوان قائم کردیا، لہٰذا جن احادیث میں تحری کے الفاظ ہیں ان سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اگر ممنوع اوقات کا قصد کرکے نماز پڑھی جائے تو مکروہ، بصورت دیگر جائز ہے۔ بہر حال امام بخاری ؒ کے نزدیک اوقات مکروہ میں مطلق طور پر نماز پڑھنا مکروہ ہے، خواہ تحری ہو یا نہ ہو۔ چونکہ حضرت قیس بن عمرو ؓ سے وہ حدیث جس میں ہے کہ انھوں نے فجر کی سنتیں نماز فجر کے بعد پڑھی تھیں۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1267) حضرت امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھی اور خود رسوال اللہ ﷺ سے بھی نماز فجر کے بعد کسی قسم کی نماز پڑھنا منقول نہیں ہے، اس لیے نماز فجر کے بعد نوافل پڑھنے کے جواز کو مرجوح خیال کرتے ہیں اور عصر کے بعد دورکعت پڑھنا ان کی شرط کے مطابق ہے، اس لیے ان کے متعلق وہ نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن دوٹوک فیصلہ اس لیے نہیں کرتے کہ حضرت عمر ؓ سے عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے والوں پر تشدد کرنا بھی ثابت ہے۔ (2) حدیث ابو ہریرہ ؓ سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ اس کے اطلاق کو تحری پر محمول کیا جائے، یعنی قصدا غروب آفتاب سے پہلے نوافل نہ پڑھے جائیں۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 588
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5819
5819. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بیع منابذہ سے منع فرمایا اور آپ نے دو اوقات میں نماز پڑھنے سے بھی منع فرمایا: نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کے بعد سورج ٖغروب ہونے تک اور اس سے بھی منع فرمایا کہ کوئی شخص صرف ایک کپڑا جسم پر لپیٹ کر اور گٹھنے اٹھا کر اس طرح بیٹھ جائے کہ اس کی شرمگاہ پر زمین و آسمان کے درمیان کوئی چیز نہ ہو اور اشتمال صماء سے بھی منع فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5819]
حدیث حاشیہ: (1) بیع ملامسہ یہ ہے کہ جو کپڑا خریدنا ہو اسے ہاتھ لگا دینے ہی سے بیع پختہ ہو جائے اور اسے الٹ پلٹ کر نہ دیکھنے کی شرط ہوئی ہو اور بیع منابذہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کی طرف کپڑا پھینکنے ہی سے بیع پختہ ہو جائے۔ یہ دونوں صورتیں دھوکے سے خالی نہیں ہیں، اس لیے ان سے منع کیا گیا ہے۔ (2) ایک کپڑا لپیٹنے کے منع ہونے کی وجہ عریانی ہے کیونکہ اس سے شرمگاہ ظاہر ہوتی ہے۔ بعض اوقات اوباش لوگ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں، ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے اور اشتمال الصماء اس لیے منع ہے کہ اس صورت میں انسان موذی جانور اور زہریلے کیڑے مکوڑوں سے اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5819