ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بچھو نے نماز میں ڈنک مار دیا، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ بچھو پر لعنت کرے کہ وہ نمازی و غیر نمازی کسی کو نہیں چھوڑتا، اسے حرم اور حرم سے باہر، ہر جگہ میں مار ڈالو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1246]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16125، ومصباح الزجاجة: 436)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/250) (صحیح)» (اس کی سند میں حکم بن عبد الملک ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1246
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حرم سے مراد و ہ علاقہ ہے۔ جس میں شکار کرنا درخت کاٹنا اور گھاس اکھاڑنا منع ہے۔ اس کے علاوہ پوری زمین حل ہے یعنی جہاں یہ پابندیاں نہیں۔
(2) حرم کی حدود میں اگرچہ جانوروں کا شکار منع ہے۔ تاہم موذی جانوروں کو وہاں بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔
(3) بحیثیت انسان ہونے کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وہ تکالیف آتی تھیں۔ جو دوسرے انسانوں پر آتی ہیں۔ مثلا بیمار ہونا، زخمی ہونا، بھوک، پیاس کی حاجت پیش آنا، غمگین ہونا، خوش ہونا، بھول جاناوغیرہ۔ ان تمام حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال ہمارے لئے اسوہ ہیں۔
(4) بُرے اور مجرم آدمی کو اس کے جرم اور گناہ کی نسبت سے لعنت کا لفظ بول دینا جائز ہے۔ جیسے قرآن مجید نے جھوٹ بولنے والے پر اور حدیث میں انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے والے پر، غیر اللہ کے لئے جانور ذبح کرنے والےپر، والدین کو لعنت کرنے والے پر، بیوی سے خلاف وضع فطری کا ارتکاب کرنے والے اور متعدد دوسرے جرائم کے مرتکب پر لعنت وارد ہے۔ دیکھئے: (سورہ آل عمران، آیت: 61 وصحیح البخاري، الصلاۃ، باب: 55، حدیث: 436، 435)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1246