عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی (رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں بلاؤ“ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا دیں؟ آپ نے فرمایا: ”بلا دو“، ام الفضل نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم عباس کو بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا، اور خاموش رہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ جاؤ ۱؎، پھر بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی ہیں، پڑھنے میں ان کی زبان رک جاتی ہے، اور جب آپ کو نہ دیکھیں گے تو رونے لگیں گے، اور لوگ بھی رونا شروع کر دیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں (تو بہتر ہو)، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نکلے، اور انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں پر ٹیک دے کر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے، جب لوگوں نے آپ کو آتے دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو «سبحان الله» کہا، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف آئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دائیں جانب بیٹھ گئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے رہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر رہے تھے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت وہاں سے شروع کی جہاں تک ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے تھے ۲؎۔ وکیع نے کہا: یہی سنت ہے، راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی مرض میں انتقال ہو گیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1235]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5358، ومصباح الزجاجة: 434)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/231، 232، 343، 355، 356، 357) (حسن)» (سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے «علی» کے ذکر کے ساتھ یہ ضعیف ہے، لیکن دوسری حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: کیوں کہ بیماری کی وجہ سے آپ کو ہمارے بیٹھنے سے تکلیف ہو گی۔ ۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنی مرضی سے بلایا تھا، لیکن بیویوں کے اصرار سے اور لوگوں کو بھی بلا لیا تاکہ ان کا دل ناراض نہ ہو، اور چونکہ بہت سے لوگ جمع ہو گئے اس لئے آپ دل کی بات نہ کہنے پائے، اور سکوت فرمایا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور صحابہ پر ثابت ہوئی کہ آپ نے نماز کی امامت کے لئے ان کو منتخب فرمایا، اور امامت صغری قرینہ ہے امامت کبری کا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت میں شریک ہونا کیسا ضروری ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیماری اور کمزوری کے باوجود حجرہ سے باہر مسجد تشریف لائے۔
قال الشيخ الألباني: حسن دون ذكر علي
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو إسحاق عنعن وللحديث شاهد ضعيف عند أحمد (209/1) والخبر مخالف لحديث البخاري (687) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 420
مروا أبا بكر فليصل بالناس فقالت عائشة يا رسول الله إن أبا بكر رجل رقيق حصر ومتى لا يراك يبكي والناس يبكون فلو أمرت عمر يصلي بالناس فخرج أبو بكر فصلى بالناس فوجد رسول الله في نفسه خفة فخرج يهادى بين رجلين ورجلاه تخطان في الأرض فلما رآه الناس سبحوا بأبي بكر
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1235
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) یہ روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکر کے بغیر بعض کے نزدیک صحیح اور بعض کے نزدیک حسن ہے۔ دیکھئے: (صحیح ابن ماجة، حدیث: 1027)
(2) اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دایئں طرف بیٹھے لیکن زیادہ صحیح روایات میں بایئں طرف بیٹھنے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، باب الرجل یأتم بالإمام، ویأتم الناس بالمأموم، حدیث: 713) سنن ابن ماجہ کی دوسری روایات میں دایئیں بایئں کا ذکر کئے بغیر صرف پہلو میں بیٹھنے کا ذکر ہے۔
(3) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ مقتدی پر فاتحہ پڑھنا فرض یا واجب نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت وہاں سے شروع کی جہاں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چھوڑی تھی یعنی فاتحہ نہیں پڑھی۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں مقتدی نہیں تھے۔ بلکہ امام تھے۔ اور امام بہرحال فاتحہ پڑھتا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
(4) قراءت سے مراد نماز ہے۔ یعنی ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی قیام میں تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شروع سے نمازشروع کردی۔ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رکوع یا سجدے میں ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامت نہ فرماتے جیسے کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی تھی۔ واقعہ کی تفصیل اگلے باب میں آرہی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1235