عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کھڑے ہو کر نماز پڑھے وہ زیادہ بہتر ہے، اور جو بیٹھ کر نماز پڑھے تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھا ثواب ہے، اور جو شخص لیٹ کر نماز پڑھے تو اسے بیٹھ کر پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھا ثواب ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1231]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 951
´بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”آدمی کا کھڑے ہو کر نماز پڑھنا بیٹھ کر نماز پڑھنے سے افضل ہے اور بیٹھ کر نماز پڑھنے میں کھڑے ہو کر پڑھنے کے مقابلہ میں نصف ثواب ہے ۱؎ اور لیٹ کر پڑھنے میں بیٹھ کر پڑھنے کے مقابلہ میں نصف ثواب ملتا ہے۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 951]
951۔ اردو حاشیہ: ➊ اگر کوئی بیمار یا ضعیف کھڑا نہیں ہو سکتا، تو و ہ بیٹھ کر پڑھنے سے ان شاء اللہ پورا اجر پائے گا۔ ➋ طاقت کے ہوتے ہوئے بغیر کسی عذر کے فرض نماز بیٹھ کر یا لیٹ کر پڑھنا قطعاً ناجائز ہے۔ [عون المعبود] البتہ نفلی نماز بغیر عذر کے بیٹھ کر پڑھنے سے آدھا اجر کم ہو جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 951
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1661
´بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز کی لیٹ کر پڑھنے والے کی نماز پر فضیلت۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا: ”جس نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی وہ سب سے افضل ہے، اور جس نے بیٹھ کر نماز پڑھی تو اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز کا آدھا ثواب ملے گا، اور جس نے لیٹ کر نماز پڑھی تو اسے بیٹھ کر پڑھنے والے کے آدھا ملے گا“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1661]
1661۔ اردو حاشیہ: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نفل نماز بیٹھ کر اور لیٹ کر بلاعذر پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن جو بیٹھ کر پڑھے اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے نصف ثواب ملے گا اور جو لیٹ کر پڑھے اسے بیٹھ کر پڑھنے والے سے بھی نصف ثواب ملے گا، تاہم عذر کی بنا پر پورا ثواب ملے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1661
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 371
´بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے سے آدھا ہے۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آدمی کی نماز کے بارے میں پوچھا جسے وہ بیٹھ کر پڑھ رہا ہو؟ تو آپ نے فرمایا: ”جو کھڑے ہو کر نماز پڑھے وہ بیٹھ کر پڑھنے والے کے بالمقابل افضل ہے، کیونکہ اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا، اور جو لیٹ کر پڑھے اسے بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ملے گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 371]
اردو حاشہ: 1؎: اور یہ فرمان نفل نماز کے بارے میں ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 371
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1115
1115. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، جو مرض بواسیر میں مبتلا تھے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو افضل ہے اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے ثواب سے آدھا ثواب ملے گا اور جو لیٹ کر نماز پڑھے گا اسے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے ثواب سے نصف ثواب ملے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1115]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں ایک اصول بتایا گیا ہے کہ کھڑے ہو کر بیٹھ کر اور لیٹ کر نمازوں کے ثواب میں کیا تفاوت ہے۔ رہی صورت مسئلہ کہ لیٹ کر نماز جائز بھی ہے یا نہیں اس سے کوئی بحث نہیں کی گئی ہے اس لیے اس حدیث پر یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ جب لیٹ کر نماز جائز ہی نہیں تو حدیث میں اس پرثواب کا کیسے ذکر ہو رہا ہے؟ مصنف ؒ نے بھی ان احادیث پر جو عنوان لگایا ہے اس کا مقصد اسی اصول کی وضاحت ہے۔ اس کی تفصیلات دوسرے مواقع پر شارع سے خود ثابت ہیں۔ اس لیے عملی حدود میں جواز اور عدم جواز کا فیصلہ انہیں تفصیلات کے پیش نظر ہوگا۔ اس باب کی پہلی دو احادیث پر بحث پہلے گزر چکی ہے کہ آنحضور ﷺ عذر کی وجہ سے مسجد میں نہیں جا سکتے تھے اس لیے آپ نے فرض اپنی قیام گاہ پر ادا کئے۔ صحابہ ؓ نماز سے فارغ ہوکر عیادت کے لیے حاضر ہوئے اور جب آپ کو نماز پڑھتے دیکھا تو آپ کے پیچھے انہوں نے بھی اقتداءکی نیت باندھ لی۔ صحابہ ؓ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے آپ نے انہیں منع کیا کہ نفل نماز میں امام کی حالت کے اس طرح خلاف مقتدیوں کے لیے کھڑا ہونا مناسب نہیں ہے۔ (تفہیم البخاری، پ: 5ص: 13) جو مریض بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکے وہ لیٹ کر پڑھ سکتا ہے۔ جس کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ امام کے ساتھ مقتدیوں کا بیٹھ کر نماز پڑھنا بعد میں منسوخ ہوگیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1115
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1115
1115. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، جو مرض بواسیر میں مبتلا تھے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو افضل ہے اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے ثواب سے آدھا ثواب ملے گا اور جو لیٹ کر نماز پڑھے گا اسے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے ثواب سے نصف ثواب ملے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1115]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ حضرت عمران بن حصین ؓ نے فرض نماز بیٹھ کر پڑھنے والے کے متعلق سوال کیا تھا یا نفل نماز۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اگر کوئی شخص فرض نماز مشقت کے باوجود کھڑے ہو کر پڑھتا ہے تو یہ افضل اور اولیٰ ہے، تاہم جو شخص ایسے حالات میں بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اسے صحیح اور تندرست کا ثواب ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: ”جو شخص بیمار ہو جائے یا حالت سفر میں ہو تو ایسے حالات میں جو نیک عمل کرے گا اسے تندرست و مقیم کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ “(فتح الباري: 755/2) اگر نفل نماز بیٹھ کر ادا کرتا ہے، حالانکہ وہ کھڑا ہو کر ادا کرنے کی ہمت رکھتا ہے تو ایسے شخص کو نصف اجر ملے گا اور بے بسی اور عاجزی کی وجہ سے بیٹھ کر نفل پڑھتا ہے تو اسے پورا ثواب ملے گا، البتہ فرض نماز اگر کھڑے ہو کر ادا کرنے کی ہمت کے باوجود بیٹھ کر ادا کی جائے تو ایسا کرنا صحیح نہیں۔ (عمدةالقاري: 433/2)(2) بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے عموم سے رسول اللہ ﷺ مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ کی خصوصیت ہے کہ اگر آپ بیٹھ کر بھی نفل ادا کریں تو بھی اللہ کے ہاں آپ کو پورا اجر دیا جاتا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں: مجھے ارشاد نبوی معلوم ہوا: بیٹھ کر نماز والے کو نصف اجر ملتا ہے۔ میں نے ایک دن رسول اللہ ﷺ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو مارے حیرت کے اپنے ہاتھ سر پر رکھ لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت کیا تو میں نے اپنی حیرت کا سبب بیان کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے جیسا نہیں ہوں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1715(735)(3) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر دیار عرب کے مشہور عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ کی تحقیق کا خلاصہ پیش کر دیا جائے، وہ فرماتے ہیں: مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ بحالت قیام نماز ادا کرے اگرچہ جھکاؤ کے ساتھ کھڑا ہو یا کسی دیوار، ستون یا لاٹھی کا سہارا لے کر کھڑا ہو۔ اگر کسی صورت میں کھڑا ہونے کی ہمت نہیں تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے لیکن اس صورت میں بہتر ہے قیام اور رکوع کے موقع پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے اور سجدہ کے وقت دو زانو بیٹھے۔ (صلاة المریض، ص: 8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1115
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1116
1116. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، جنہیں مرض بواسیر کی شکایت تھی، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو افضل ہے اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے ثواب سے نصف اجر ملے گا اور جو لیٹ کر نماز پڑھے گا اسے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے ثواب سے نصف ثواب ملے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1116]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث میں اشارے سے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں۔ چونکہ حدیث میں بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے متعلق تفصیل نہیں کہ وہ کس طرح نماز پڑھے، اس عموم کے پیش نظر امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا اشارے سے رکوع اور سجود کر لے تو اس کے لیے جائز ہے۔ بعض مالکی حضرات کا یہ موقف ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والا اگر رکوع اور سجود کر سکتا ہو تو بھی اسے اجازت ہے کہ وہ اشارے سے نماز پڑھ لے۔ واللہ أعلم۔ (2) شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ لکھتے ہیں: اگر مریض بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو اپنے پہلو کے بل لیٹ کر قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے، دائیں پہلو پر لیٹنا افضل ہے۔ اگر قبلے کی طرف منہ کرنے کی ہمت نہیں تو جس سمت بھی منہ ہے نماز پڑھ لے۔ اگر پہلو کے بل لیٹ نہیں سکتا تو سیدھا لیٹ کر نماز ادا کرے۔ اس صورت میں اس کے پاؤں قبلہ کی طرف ہوں گے۔ بہتر ہے کہ سر کے نیچے کوئی چیز رکھ کر اسے اونچا کرے تاکہ قبلہ کی طرف اس کا منہ ہو سکے۔ اگر پاؤں قبلہ کی طرف نہ ہو سکیں تو جیسے بھی ممکن ہو نماز پڑھ لے۔ مریض کو چاہیے کہ وہ رکوع و سجود بجا لائے۔ اگر اس کی ہمت نہیں تو اشارے سے رکوع اور سجدہ کر لے۔ ایسے حالت میں سجدے کے وقت کچھ زیادہ جھکے۔ اگر سر کے اشارے سے نماز نہیں پڑھ سکتا تو آنکھ کے اشارے سے نماز پڑھے۔ رکوع کے وقت تھوڑی سی آنکھ بند کر لے اور سجدے کے وقت اس سے زیادہ بند کرے۔ بعض مریض انگلی کے اشارے سے نماز پڑھتے ہیں، اس کا ثبوت کتاب و سنت سے نہیں ملتا اور نہ اہل علم ہی میں سے کسی نے اس کی اجازت دی ہے۔ اگر آنکھ سے اشارہ بھی نہیں کر سکتا تو دل سے نماز ادا کرے، یعنی رکوع، سجود، قیام و قعود کی دل سے نیت کرے، ہر انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے نیت کی، بہرحال جب تک اسے ہوش ہے اس سے نماز معاف نہیں ہوتی۔ (صلاة المریض، ص: 6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1116