علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»”اے اللہ! میں تیری رضا مندی کے ذریعہ تیری ناراضی سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیری معافی کے ذریعہ تیری سزاؤں سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیرے رحم و کرم کے ذریعہ تیرے غیظ و غضب سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری حمد و ثنا کو شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی تعریف کی ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1179]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1748
´وتر کی دعا کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وتر کے آخر میں یہ کلمات کہتے تھے: «اللہم إني أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»”اے اللہ! میں تیری خوشی کی تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں، تیرے بچاؤ کی تیری پکڑ سے پناہ مانگتا ہوں، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تجھ سے، میں تیری تعریف نہیں کر سکتا تو ویسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔“[سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1748]
1748۔ اردو حاشیہ: ➊ مذکورہ حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ اس دعا کا مقام کیا ہے؟ تشہد کے آخر میں یا سلام کے بعد۔ مؤخر الذکر مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت میں آپ سے یہ الفاظ بستر پر لیٹنے وقت پڑھنے بھی منقول ہیں۔ پیچھے حدیث نمبر 1101 میں یہ الفاظ تہجد کے سجدے کے دوران میں بھی آپ سے پڑھنے منقول ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دعا کو قنوت وتر میں سمجھتے ہیں۔ «اخروترہ» کے یہ معنی بھی ممکن ہیں۔ لیکن ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق میں افی اخر وترہ سے مراد سلام کے بعد ان کلمات کا پڑھنا ہے۔ ان کے بقول سنن نسائی کی ایک روایت میں نماز سے فراغت کی تصریح ملتی ہے۔ دیکھیے: (زادالمیعاد: 1؍336) ➋ قنوت وتر سارا سال ہی جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موضوع سے متعلقہ عام روایات میں دعائے وتر کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر آپ سے اس دعا کے پڑھنے کا بدستور ثبوت ملتا ہوتا تو یقیناًً منقول بھی ہوتا، اس سے پتا چلتا ہے کہ دعائے وتر کبھی رہ جائے یا اسے چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں کیونکہ اس دعا کی حیثیت وجوب کی نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قنوت وتر کا ثبوت کبھی کبھار ملتا ہے۔ تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (اصل صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم: 3؍968)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1748
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1427
´نماز وتر میں قنوت پڑھنے کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك، وبمعافاتك من عقوبتك، وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»”اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی، تیری سزا سے تیری معافی کی اور تجھ سے تیری پناہ چاہتا ہوں، میں تیری تعریف شمار نہیں کر سکتا، تو اسی طرح ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: ہشام حماد کے سب سے پہلے استاذ ہیں اور مجھے یحییٰ بن معین کے واسطہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں کہا ہے کہ ہشام سے سوائے حماد بن سلمہ کے کسی اور نے روایت نہیں کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عیسیٰ بن یونس نے سعید بن ابی عروبہ سے، سعید نے قتادہ سے، قتادہ نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور ابن ابزی نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عیسیٰ بن یونس نے اس حدیث کو فطر بن خلیفہ سے بھی روایت کیا ہے اور فطر نے زبید سے، زبید نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے، ابن ابزی نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور ابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ نیز حفص بن غیاث سے مروی ہے، انہوں نے مسعر سے، مسعر نے زبید سے، زبید نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن سے اور عبدالرحمٰن نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر میں رکوع سے قبل قنوت پڑھی۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: سعید کی حدیث قتادہ سے مروی ہے، اسے یزید بن زریع نے سعید سے، سعید نے قتادہ سے، قتادہ نے عزرہ سے، عزرہ نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور ابن ابزی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اس میں قنوت کا ذکر نہیں ہے اور نہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا۔ اور اسی طرح اسے عبدالاعلی اور محمد بن بشر العبدی نے روایت کیا ہے، اور ان کا سماع کوفہ میں عیسیٰ بن یونس کے ساتھ ہے، انہوں نے بھی قنوت کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ نیز اسے ہشام دستوائی اور شعبہ نے قتادہ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے بھی قنوت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ زبید کی روایت کو سلیمان اعمش، شعبہ، عبدالملک بن ابی سلیمان اور جریر بن حازم سبھی نے روایت کیا ہے، ان میں سے کسی ایک نے بھی قنوت کا ذکر نہیں کیا ہے، سوائے حفص بن غیاث کی روایت کے جسے انہوں نے مسعر کے واسطے سے زبید سے نقل کیا ہے، اس میں رکوع سے پہلے قنوت کا ذکر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حفص کی یہ حدیث مشہور نہیں ہے، ہم کو اندیشہ ہے کہ حفص نے مسعر کے علاوہ کسی اور سے روایت کی ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ بھی مروی ہے کہ ابی بن کعب قنوت رمضان کے نصف میں پڑھا کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1427]
1427. اردو حاشیہ: ➊ دعائے قنوت وتر کی بابت حضرت ابی کعب سے مروی ہے۔رسول اللہ ﷺ تین وتر پڑھتے اور دعائے قنوت رکوع سے قبل پڑھتے۔ دیکھئے۔ [سنن نسائی، قیام اللیل، حدیث: 1700 و سنن ابن ماجة، إقامة الصلاة، حدیث: 1182) نیز مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمل مذکور ہے۔ کہ یہ قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ دیکھئے۔ [مصنف ابن أبي شیبة: 97/2] واضح رہے کہ مسنون طریق تو یہی ہے۔ کہ وتروں میں دعائے قنوت قبل از رکوع ہوا۔ البتہ قنوت نازلہ بالخصوص رکوع کے بعد ہی ثابت ہے۔ تاہم بعض علماء دعائے قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کے قائل ہیں۔ اور وہ بھی جائز ہے۔ لیکن علمائے محققین حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرعاۃ مولانا عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اوردیگر علمائے قنوت وتر قبل از رکوع والی روایات کو زیادہ ترصحیح کہا ہے۔ اور انہیں بعد از رکوع والی روایات پر ترجیح دی ہے۔ جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ کہ افضل اور اولیٰ یہی ہے۔ کہ قنوت وتررکوع سے قبل پڑھی جائے۔ (واللہ اعلم) ➋ دعائے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے۔ تاہم مصنف ابن ابی شیبہ میں کچھ آثار ملتے ہیں۔ جن میں صرف ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے۔ دیکھئے۔ [مصنف ابن أبي شیبة: 101/2] بعض علماء کے نزدیک ہاتھ اُٹھا کر یا ہاتھ اُٹھائے بغیر دونوں طریقوں سے قنوت وتر پڑھنا صحیح ہے۔ تاہم ہاتھ اُٹھا کر دعائے قنوت پڑھنا اس لئے راحج ہے کہ ایک تو قنوت نازلہ میں نبی کریمﷺ سے ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔ تو اس پر قیاس کرتےہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اُٹھانے صحیح ہوں گے۔ دوسرے بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے کا ثبوت ملتا ہے۔ ➌ عام دعا کے اختتام پر ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا گو کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ مگر بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین مثلا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ عمل ثابت ہے۔ دیکھئے۔ [الأدب المفرد، حدیث: 609] اس لئے اس کا جواز ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص دعائے قنوت کے بعد اپنے ہاتھ منہ پر نہیں پھیرتا تو اس کا یہ عمل صحیح ہے۔ کیونکہ اس کا ثبوت صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے بھی نہیں ملتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1427
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3566
´وتر کی دعا کا بیان۔` علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی (نماز) وتر میں یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3566]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے بچ کر تیری رضا و خوشنودی کی پناہ میں آتا ہوں، اے اللہ! میں تیرے عذاب و سزا سے بچ کر تیرے عفو ودرگزر کی پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیرے غضب سے، میں تیری ثناء (تعریف) کا احاطہ و شمار نہیں کر سکتا تو تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنے آپ کی ثناء و تعریف کی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3566