عبداللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہا تھا، اور نماز فجر کے لیے اقامت کہی جا رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا، جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا تو ہم اس کے گرد یہ پوچھنے کے لیے جمع ہو گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا تھا؟ اس شخص نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”قریب ہے کہ اب تم میں سے کوئی فجر کی نماز چار رکعت پڑھے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1153]
وضاحت: ۱؎: فجر کی چار رکعت پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اقامت کے بعد وہ دو رکعت سنت پڑھتا ہے، جبکہ وہ فرض نماز کا محل ہے، گویا کہ اس نے فرض کو چار رکعت پڑھ ڈالا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1153
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کا مقصد نرم الفاظ میں اس کام سے روکنا تھا۔ یعنی اقامت کے بعد تو فرض نماز ہوتی ہے۔ تم نے فرضوں کو بھی سنتوں سے ملا دیا۔ گویا چارفرض بنا لیے۔
(2) رسول اللہ نے اقامت کے بعد جماعت کھڑی ہونے سے پہلے سنت پڑھنے سے منع فرمایا توجماعت کھڑی ہونے کے بعد سنتین پڑھنا بدرجہ اولیٰ منع ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1153
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 868
´اقامت کے بعد نفل یا سنت پڑھنے کی کراہت کا بیان۔` ابن بحینہ (عبداللہ بن مالک ازدی) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز فجر کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اور مؤذن اقامت کہہ رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم فجر کی نماز چار رکعت پڑھتے ہو؟۔“[سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 868]
868 ۔ اردو حاشیہ: یہ روایت صریح ہے کہ اقامت شروع ہو جائے تو صبح کی سنتیں بھی شروع نہیں کر سکتا۔ اوپر والی احادیث کا تقاضا بھی یہی ہے۔ مگر احناف حضرات صبح کی سنتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں، خواہ اقامت کیا، جماعت ہی ہو رہی ہو، بشرطیکہ تشہد مل جائے۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقامت کے دوران میں سنتیں شروع کرنے پرڈانٹ رہے ہیں۔ احناف ان احادیث کی دورازکار تاویلات کرتے ہیں، مثلاً: یہ روایات مسجد میں الگ نماز پڑھنے سے روکتی ہیں، نہ کہ مسجد سے باہر۔ یا صف کے اندر نماز پڑھنے سے مانع ہیں کہ صف منقطع ہو گی۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا مندرجہ بالا احادیث پڑھ کر ذہن میں یہ بات آتی ہے؟ اگر یہ قیود کسی اور حدیث سے لی گئی ہیں تو براہ کرم ان کا حوالہ دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ توجیہ خودساختہ ہے۔ کوئی حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی اور نہ کوئی روایت ہی مندرجہ بالا روایت کے منافی آئی ہے جس کی بنا پر تاویل کی گئی ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس حکم سے صبح کی سنتیں خاص ہیں کیونکہ پہلے نہ پڑھنے کی صورت میں وہ قضا سے بھی رہ جائیں گی کیونکہ فرضوں کے بعد نفل جائز نہیں اور طلوع شمس کے بعد نماز کا وقت ہی ختم ہو جائے گا، حالانکہ یہ روایت تو ہے ہی صبح کی سنتوں کے بارے میں۔ باقی رہی قضا تو وہ فرض نماز کے بعد ہو سکتی ہے جیسا کہ سنن ابوداود اور جامع ترمذی میں ایک صحابی کے فجر کی نماز کے بعد سنتیں پڑھنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں برقرار رکھنے کی روایت آئی ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داؤد، التطوع، حدیث: 1267، وجامع الترمذي الصلاة، حدیث: 422]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 868
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 663
663. حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے۔ حفص بن عاصم (راوی حدیث) کہتے ہیں: میں نے ازد قبیلے کے ایک آدمی سے سنا، اسے مالک ابن بحینہ کہا جاتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا جبکہ نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے اس آدمی کو گھیر لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا: ”کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں؟“ غندر اور معاذ نے بہز بن اسد کی متابعت کی ہے، وہ شعبہ سے بیان کرتے ہیں اور شعبہ مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے اس کی سند بیان کرتے ہوئے کہا: عن سعد عن حفص عن عبداللہ ابن بحینہ۔ حماد نے اس کی سند بایں طور بیان کی: ہمیں سعد نے خبر دی، اس نے حفص سے بیان کیا، وہ مالک سے روایت کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:663]
حدیث حاشیہ: حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں جن لفظوں میں باب منعقد کیاہے یہ لفظ خود اس حدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ جسے امام مسلم اور سنن والوں نے نکالاہے۔ مسلم بن خالد کی روایت میں اتنا زیادہ اورہے کہ فجر کی سنتیں بھی نہ پڑھے۔ حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب محدث حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارے امام احمدبن حنبل اوراہل حدیث کا یہی قول ہے کہ جب فرض نماز کی تکبیر شروع ہوجائے توپھر کوئی نماز نہ پڑھے نہ فجر کی سنتیں نہ اور کوئی سنت یا فرض، بس اسی فرض میں شریک ہوجائے جس کی تکبیر ہورہی ہے۔ اوربیہقی کی روایت میں جو یہ مذکور ہے الارکعتی الفجر اور حنفیہ نے اس سے دلیل پکڑی کہ فجر کی جماعت ہوتے بھی سنت پڑھنی ضروری ہے، صحیح نہیں ہے۔ اس کی سند میں حجاج بن نصیرمتروک اورعباد بن کثیرمردودہے۔ اہل حدیث کایہ بھی قول ہے کہ اگرکوئی فجر کی سنتیں شروع کرچکا ہو اورفرض کی تکبیر ہو توسنت کو توڑدے اور فرض میں شریک ہوجائے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیل الاوطار میں اس حدیث بخاری کی شرح میں نواقوال ذکر کئے ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ان لفظوں میں بیان فرمایاہے: أنه أن خشي فوت الرکعتین معا و أنه لایدرك الإمام قبل رفعه من الرکوع في الثانیة دخل معه و إلا فلیرکعهما یعني رکعتی الفجر خارج المسجد ثم یدخل مع الإمام۔ اگریہ خطرہ ہو کہ فرض کی ہردو رکعت ہاتھ سے نکل جائیں گی توفجر کی سنتوں کو نہ پڑھے بلکہ امام کے ساتھ مل جائے اوراگراتنا بھی احتمال ہے کہ دوسری رکعت کے رکوع میں امام کے ساتھ مل سکے گا توان دو رکعت سنت فجر کو پڑھ لے پھر فرضوں میں مل جائے۔ اس سلسلہ میں امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے جو بیہقی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: إذا أقیمت الصلوٰة فلا صلوٰة إلا المکتوبة إلا رکعتي الصبح۔ یعنی تکبیر ہوچکنے کے بعد سوائے اس فرض نماز کے اورکوئی نماز جائز نہیں مگر صبح کی دو رکعت سنت۔ امام بیہقی اس حدیث کو نقل کرکے خود فرماتے ہیں: هذہ الزیادة لا أصل لها وفي إسنادها حجاج بن نصیر وعباد بن کثیر وهما ضعیفان۔ یعنی یہ إلارکعتي الفجر والی زیادتی بالکل بے اصل ہے۔ جس کا کوئی ثبوت نہیں اوراس کی سند میں حجاج بن نصیر اورعبادبن کثیرہیں اور یہ دونوں ضعیف ہیں۔ اس لیے یہ زیادتی قطعاً ناقابل اعتبار ہے۔ برخلاف اس کے خود امام بیہقی ہی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت ان لفظوں میں نقل کی ہے: عن أبي هریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أقیمت الصلوٰة فلا صلوٰة إلا المکتوبة قیل یارسول اللہ ولا رکعتي الفجر قال ولا رکعتي الفجر في إسنادہ مسلم بن خالد الزنجی وهو متکلم فیه وقد وثقه ابن حبان واحتج به في صحیحه یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب نماز فرض کی تکبیر ہوجائے تو پھرکوئی اورنماز جائز نہیں۔ کہا گیا کہ فجر کی سنتوں کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔ فرمایا کہ وہ بھی جائز نہیں۔ اس حدیث کی سند میں مسلم بن خالد زنجی ہے۔ جس میں کلام کیا گیا ہے۔ مگر امام ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے اور اس کے ساتھ حجت پکڑی ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بحث میں آخری نواں قول ان لفظوں میں نقل کیاہے: إنه إذا سمع الإقامة لم یحل له الدخول في رکعتي الفجرولا في غیرها من النوافل سواءکان في المسجد أو خارجه فإن فعل فقد عصی و هو قول أهل الظاهر و نقله ابن حزم عن الشافعي وجمهور السلف۔ (نیل الاوطار) یعنی تکبیرسن لینے کے بعد نمازی کے لیے فجر کی سنت پڑھنا یا اورکسی نماز نفل میں داخل ہونا حلال نہیں ہے۔ وہ مسجد میں ہو یا باہر اگرایسا کیا تووہ خدا اور رسول کا نافرمان ٹھہرا۔ اہل ظاہر کا یہی فتویٰ ہے اورعلامہ ابن حزم نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف سے اسی مسلک کو نقل کیا ہے۔ ایک تاریخی مکتوب مبارک: کون اہل علم ہے جو حضرت مولانا احمدعلی صاحب مرحوم سہارن پوری کے نام نامی سے واقف نہیں۔ آپ نے بخاری شریف کے حواشی تحریر فرما کر اہل علم پر ایک احسان عظیم فرمایا ہے۔ مگراس بحث کے موقع پر آپ کا قلم بھی جادئہ اعتدال سے ہٹ گیا۔ یعنی آپ نے اسی بیہقی والی روایت کو بطوردلیل نقل کیا ہے۔ اور اسے علامہ مولانا محمد اسحاق صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب فرمایا ہے۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ اس روایت پر روایت نقل کرنے والے بزرگ یعنی خود علامہ بیہقی کا فیصلہ بھی نقل کر دیا جاتا، مگر ایسا نہیں کیا جس سے متاثرہو کر استاذالاساتذہ شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا واستاذنا سید محمد نذیرحسین صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے نام ایک خط تحریر فرمایا تھا۔ چونکہ یہ خط ایک علمی دستاویز ہے جس سے روشن خیال نوجوان کوبہت سے امور معلوم ہوسکیں گے۔ اس لیے اس کا پورا متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔ امید کہ قارئین کرام و علمائے عظام اس کے مطالعہ سے محظوظ ہوں گے: من العاجز النحیف السید محمدنذیر حسین إلی المولوي أحمدعلي سلمه اللہ القوی السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته وبعد فاتباعا بحدیث خیر الأنام علیه أفضل التحیة والسلام الدین النصیحة و ابتغاءتاس بأحسن القول کفی بالمرء إثما أن یحدث بکل ما سمع أظهر بخدمتکم الشریفة أن ما وقع من ذلك المکرم في الحاشیة علی صحیح البخاري تحت حدیث إذا أقیمت الصلوٰة فلا صلوٰة إلاالمکتوبة سمعت أستاذي مولانا محمد إسحاق رحمه اللہ تعالیٰ یقول ورد في روایة البیهقي إذا أقیمت الصلوٰة فلا صلوٰة إلا رکعتي الفجر انتهیٰ۔ جعله أکثر طلبة العلم بل بعض أکابر زماننا الذین یعتمدون علی قولکم بمروة أنفسهم یصلون السنة و لایبالون فوت الجماعة و هذہ الزیادة الاستنثناء الاخیر إلا رکعتي الفجر لا أصل لها بل مردودة مطرودة عندالمحققین ولاسیما عندالبیہقی الامین وآفۃ الوضع علی ہذا الحدیث الصحیح انما طرءعن عباد بن کثیر وحجاج بن نصیر بالحاق ہذہ الزیادۃ الاستثناءالاخیر وظنی انکم ایہا الممجد ماسمعتم نقل کلام استاذی العلامۃ البحر الفہامۃ المشتہربین الافآق مولانا محمد اسحاق رحمہ اللہ تعالیٰ خیررحمۃ فی یوم التلاق من البیہقی بالتمام والکمال فان البیہقی قال لا اصل لہا او تسامح من المولانا المرحوم لضعف مزاجہ فی نقلہا والا فلا کلام عند الثقاۃ المحدثین فی بطلان الارکعتی الفجر کما ہو مکتوب الیکم ومعارضہ معروض علیکم قال الشیخ سلام اللہ فی المحلی شرح المؤطا زاد مسلم بن خالد عن عمرو بن دینار فی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ قیل یارسول اللہ ولارکعتی الفجر قال ولا رکعتی الفجر اخرجہ ابن عدی وسندہ حسن واما زیادۃ الارکعتی الصبح فی الحدیث فقال البیہقی ہذہ الزیادۃ لااصل لہا انتہی مختصرا وقال التورپشتی وزاد احمدبلفظ فلاصلوٰۃ الاالتی اقیمت وہو اخص وزاد ابن عدی بسند حسن قیل یارسول اللہ ولارکعتی الفجرقال ولارکعتی الفجر وقال الشوکانی وحدیث اذا اقیمت الصلوٰۃ فلاصلوٰۃ الاالمکتوبۃ الارکعتی الصبح قال البیہقی ہذہ الزیادۃ لااصل لہا وقال الشیخ نورالدین فی موضوعاتہ حدیث اذااقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الاالمکتوبۃ الارکعتی الفجر روی البیہقی عن ابی ہریرۃ وقال ہذہ الزیادۃ لااصل لہا وہکذا فی کتب الموضوعات الاخریٰ فعلیکم والحالۃ ہذہ بصیانۃ الدین اما ان تصححوا الجملۃ الاخیرۃ من کتب ثقات المحققین اوترجعوا وتعلموا طلبتکم ان ہذہ الزیادۃ مردودۃ ولایلیق العمل بہا ولا یعتقد بسنیتہما وہااناارجو الجواب بالصواب فانہ ینبہ الغفلۃ ویوقظ الجہلۃ والسلام مع الاکرام۔ (اعلام اہل العصر باحکام رکعتی الفجر، ص: 36) ترجمہ: یہ مراسلہ عاجز نحیف سیّدمحمدنذیرحسین کی طرف سے مولوی احمدعلی سلمہ اللہ القوی کے نام ہے۔ بعد سلام مسنون حدیث خیرالانام علیہ التحیۃ والسلام الدین النصیحۃ (دین خیرخواہی کا نام ہے) کی اتباع اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: کفی بالمرءاثما الحدیث (انسان کو گنہگار بنانے کے لیے یہی کافی ہے کہ بغیر تحقیق کامل ہرسنی سنائی بات کونقل کردے) کے پیش نظرآپ کی خدمت شریف میں لکھ رہاہوں کہ آپ مکرم نے بخاری شریف کی حدیث اذا اقیمت الصلوٰۃ الحدیث کے حاشیہ پربیہقی کے حوالہ سے حضرت الاستاذ مولانا محمداسحاق صاحب کا قول نقل فرمایاہے جس سے سنت فجر کا جماعت فرض کی حالت میں پڑھنے کا جواز نکلتاہے۔ آپ کے اس قول پر بھروسا کرکے بہت سے طلبہ بلکہ بعض اکابر عصر حاضر کا یہ عمل ہوگیاہے کہ فرض نماز فجر کی جماعت ہوتی رہتی ہے اور وہ سنتیں پڑھتے رہتے ہیں۔ سوواضح ہو کہ روایت مذکورہ میں بیہقی کے حوالہ سے الارکعتی الفجر والی زیادتی محققین علماءخاص طور پر حضرت علامہ بیہقی کے نزدیک بالکل مردود اورمطرود ہے۔ اورحدیث صحیح روایت کردہ حضرت ابوہریرہ پر یہ اضافہ عبادبن کثیر وحجاج بن نصیر کا وضع کردہ ہے۔ اوراے محترم فاضل! میرا گمان ہے کہ آپ نے حضرت مولانا واستاذناعلامہ فہامہ مولانا محمداسحاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیہقی سے نقل کردہ قول پورے طور پر نہیں سنا۔ حالانکہ خودامام بیہقی وہاں فرمارہے ہیں کہ یہ قول بالکل بے اصل ہے۔ یاپھر حضرت مولانا (محمداسحاق مرحوم) کی طرف سے اس کے نقل میں ان کے ضعف مزاج کی وجہ سے تسامح ہواہے۔ ورنہ الارکعتی الفجر کے لفظوں کے بطلان میں ثقات محدثین کی طرف سے کوئی کلام ہی نہیں۔ جیسا کہ شیخ سلام اللہ صاحب نے محلّی شرح مؤطا میں فرمایاہے کہ مسلم بن خالد نے عمروبن دینار سے نقل کیاہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: اذا اقیمت الصلوٰۃ فلاصلوٰۃ الاالمکتوبۃ توآپ سے پوچھا گیا کہ فجر کی دوسنتوں کے بارے میں کیاارشاد ہے۔ آپ نے فرمایاہاں ولارکعتی الفجر یعنی جب فرض نماز کی تکبیر ہوگئی تواب کوئی نماز حتیٰ کہ دوسنتوں کا پڑھنا بھی جائز نہیں۔ اس کو ابن عدی نے سند حسن کے ساتھ روایت کیاہے۔ اورنقل کردہ زیادتی الارکعتی الفجر کے بارے میں امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس زیادتی کی کوئی اصل نہیں ہے۔ تورپشتی نے کہا کہ احمدنے زیادہ کیا فلا صلوٰۃ الاالتی اقیمتیعنی اس وقت خصوصاً وہی نماز پڑھی جائے گی، جس کی تکبیر کہی گئی ہے۔ اورابن عدی نے سند حسن کے ساتھ زیادہ کیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، کیا نماز فجر کی سنتوں کے بارے میں بھی یہی ارشاد ہے۔ آپ نے فرمایاہاں بوقت جماعت ان کا پڑھنا بھی جائز نہیں۔ امام شوکانی حضرت امام بیہقی سے تحت حدیث اذااقیمت الصلوٰۃ الخمیں زیادتی الارکعتی الفجر کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ یہ زیادتی بالکل من گھڑت اوربے اصل ہے۔ شیخ نورالدین نے بھی ان لفظوں کو موضوعات میں شمار کیاہے اوردوسری کتب موضوعات میں بھی یہ صراحت موجود ہے۔ ان حالات میں دین کی حفاظت کے لیے آپ پر لازم ہوجاتاہے کہ یاتوثقات محققین کی کتابوں سے اس کی صحت ثابت فرمائیں۔ یا پھر رجوع فرماکر اپنے طلبا کو آگاہ فرمادیں کہ یہ زیادتی ناقابل عمل اور مردود ہے، ان کے سنت ہونے کا عقیدہ بالکل نہ رکھا جائے۔ میں جواب باصواب کے لیے اُمیدوار ہوں جس سے غافلوں کو تنبیہ ہوگی۔ اوربہت سے جاہلوں کے لیے آگاہی۔ والسلام مع الاکرام۔ جہاں تک بعد کی معلومات ہیں حضرت مولانااحمدعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس مکتوب کا کوئی جواب نہیں دیا نہ ہی اس غلطی کی اصلاح کی۔ بلکہ آج تک جملہ مطبوعہ بخاری معہ حواشی مولانا مرحوم میں یہ غلط بیانی موجود ہے۔ پس خلاصہ المرام یہ کہ فجر کی جماعت ہوتے ہوئے فرض نماز چھوڑ کر سنتوں میں مشغول ہونا جائز نہیں ہے۔ پھر ان سنتوں کو کب ادا کیا جائے اس کے بارے میں حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں یوں باب منعقد کیاہے: ”باب ما جاءفیمن تفوته الرکعتان قبل الفجر یصلیهما بعد صلوٰة الصبح ”باب اس بارے میں جس کی فجر کی یہ دوسنتیں رہ جائیں وہ ان کو نماز فرض کی جماعت کے بعد ادا کرے، اس پر امام ترمذی نے یہ حدیث دلیل میں پیش کی ہے: عن محمدبن ابراہیم عن جدہ قیس قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاقیمت الصلوٰۃ فصلیت معہ الصبح ثم انصرف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فوجدنی اصلی فقال مہلا یاقیس اصلاتان معا قلت یارسول اللہ انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر قال فلا اذن۔ یعنی محمدبن ابراہیم اپنے دادا قیس کا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز فرض باجماعت ادا کی۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نماز میں پھر مشغول ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا توفرمایا کہ اے قیس! کیا دو نمازیں پڑھ رہے ہو؟ میں نے عرض کی۔ حضورمجھ سے فجر کی سنت رہ گئی تھیں ان کو ادا کررہاہوں آپ نے فرمایا۔ پھر کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں: وقدقال قوم من اہل مکۃ بہذاالحدیث لم یروا باسا ان یصلی الرجل الرکعتین بعد المکتوبۃ قبل ان تطلع الشمس۔ یعنی مکہ والوں میں سے ایک قوم نے اس حدیث کے پیش نظر فتویٰ دیاہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ جس کی فجر کی سنتیں رہ جائیں وہ نماز جماعت کے بعد سورج نکلنے سے پہلے ہی ان کو پڑھ لے۔ المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: اعلم ان قولہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا اذن معناہ فلاباس علیک ان تصلیہما حینئذ کماذکرتہ ویدل علیہ روایۃ ابی داؤد فسکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الی ان) فاذا عرفت ہذا کلہ ظہرلک بطلان قول صاحب العرف الشذی فی تفسیر قولہ فلااذن معناہ فلا تصلی مع ہذا العذر ایضا ای فلااذن للانکار۔ (تحفۃ الاحوذی) یعنی جان لے کہ فرمان نبوی فلااذن کا مطلب یہ کہ کوئی حرج نہیں کہ توان کواب پڑھ رہاہے، ابوداؤد میں صراحت یوں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ اس تفصیل کے بعد صاحب عرف الشذی کے قول کا بطلان تجھ پر ظاہر ہوگیا۔ جنھوں نے فلا اذنکے معنی انکار کے بتلائے ہیں۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ سے اس کو ان سنتوں کے پڑھنے سے روک دیا۔ حالانکہ یہ معنی بالکل غلط ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال ابن عبدالبر وغیرہ الحجۃ عندالتنازع السنۃ فمن ادلی بہا فقد افلح وترک التنفل عنداقامۃ الصلوٰۃ وتدارکھا بعد قضاءالفرض اقرب الی اتباع السنۃ ویتایدذلک من حیث المعنی بان قولہ فی الاقامۃ حی علی الصلوٰۃ معناہ ہلموا الی الصلوٰہ ای التی یقام لہا فاسعد الناس بامتثال ہذاالامر من لم یتشاغل عنہ بغیرہ واللہ اعلم۔ یعنی ابن عبدالبر وغیرہ فرماتے ہیں کہ تنازع کے وقت فیصلہ کن چیز سنت رسول ہے۔ جس نے اس کو لازم پکڑا وہ کامیاب ہوگیا اورتکبیر ہوتے ہی نفل نمازوں کو چھوڑدینا (جن میں فجر کی سنتیں بھی داخل ہیں) اوران کو فرضوں سے فارغ ہونے کے بعد ادا کرلینا اتباع سنت کے یہی قریب ہے اوراقامت میں جوحی علی الصلوٰۃ کہا جاتاہے معنوی طور پر اس سے بھی اسی امر کی تائید ہوتی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نماز کے لیے آؤ جس کے لیے اقامت کہی جارہی ہے۔ پس خوش نصیب وہی ہے جو اس امر پر فوراً عامل ہواوراس کے سوا اورکسی غیرعمل میں مشغول نہ ہو۔ خلاصہ یہ کہ فجر کی نماز فرض کی جماعت ہوتے ہوئے سنتیں پڑھتے رہنا اور جماعت کو چھوڑ دینا عقلاً و نقلاً کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ پھر بھی ہدایت اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 663
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:663
663. حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے۔ حفص بن عاصم (راوی حدیث) کہتے ہیں: میں نے ازد قبیلے کے ایک آدمی سے سنا، اسے مالک ابن بحینہ کہا جاتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا جبکہ نماز کے لیے اقامت ہو چکی تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے اس آدمی کو گھیر لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا: ”کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں؟“ غندر اور معاذ نے بہز بن اسد کی متابعت کی ہے، وہ شعبہ سے بیان کرتے ہیں اور شعبہ مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے اس کی سند بیان کرتے ہوئے کہا: عن سعد عن حفص عن عبداللہ ابن بحینہ۔ حماد نے اس کی سند بایں طور بیان کی: ہمیں سعد نے خبر دی، اس نے حفص سے بیان کیا، وہ مالک سے روایت کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:663]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود نماز باجماعت کی اہمیت کو بیان کرنا ہے کہ فرض جماعت کی موجودگی میں کوئی دوسری نماز نہیں ہوتی۔ اس کے لیے انھوں نے جو عنوان منتخب فرمایا ہے وہ دراصل ایک حدیث کے الفاظ ہیں جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة،حدیث: 1644(716) ان کے علاوہ دیگر اصحاب السنن نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ چونکہ اس حدیث کے مرفوع یا موقوف ہونے کے متعلق معمولی سا اختلاف تھا جس کی طرف امام مسلم نے اشارہ کیا ہے، (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1648(710) اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو متن میں بیان نہیں کیا بلکہ حسب عادت اسے عنوان کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس حدیث کا مضمون صحیح تھا، اس لیے دیگر احادیث سے اس کی تائید فرمائی ہے۔ (2) عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تکبیر ہوجائے تو ہر قسم کی نماز منع ہے، خواہ سنت ہوں یا نوافل اور راتبہ ہوں یاغیر راتبہ، البتہ الفاظ کے اعتبار سے ہر قسم کے فرائض اس سے خارج ہیں۔ بعض اہل علم نے نماز فجر کی تکبیر کے بعد چند شرائط کے ساتھ فجر کی دو سنت ادا کرنے کی گنجائش پیدا کی ہے، چنانچہ متداول درسی بخاری کے حاشیے پر بیہقی کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کی تکبیر ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی، ہاں فجر کی دو سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ “(حاشیہ بخاری: 1/91، طبع ھند) بلاشبہ یہ حدیث بیہقی: (2/483) میں موجود ہے لیکن امام بیہقی نے خود اس روایت کوبیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مذکورہ اضافہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے، نیز اس کی سند میں حجاج بن نصر اور عباد بن کثیر دوراوی ضعیف ہیں۔ اس کے برعکس امام بیہقی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت بایں الفاظ بیان کی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز فجر کی تکبیر ہوجائے تو دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی۔ “ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ایسے حالات میں فجر کی دو سنتیں پڑھنا بھی درست نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، تکبیر کے بعد فجر کی دوسنتیں پڑھنا بھی جائز نہیں۔ “(السنن الکبرٰی للبیهقي: 483/2) اس کی سند میں اگرچہ مسلم بن خالد نامی راوی متکلم فیہ ہے لیکن امام ابن حبان نے اسے ثقہ کہا ہے اور اپنی صحیح میں اسے قابل حجت قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس روایت کو ابن عدی نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 2/194) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس شخص کو پیٹتے تھے جو نماز کی تکبیر ہوجانے کے بعد کسی دوسری نماز میں مشغول ہوتا، نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ایسے شخص کو کنکریاں مارتے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي: 2/483) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر ہوجانے کے بعد فجر کی سنتیں ادا کرنا اور فرض نماز میں شمولیت نہ کرنا صحیح نہیں۔ (3) ایک تاریخی دستاویز: مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر استاذ الا ساتذہ سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کا وہ مکتوب نقل کردیا جائے جو انھوں نے صحیح بخاری کے حاشیہ نگار مولانا احمد علی سہارنپوری کے نام رقم فرمایا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ عاجزو ناتواں سید محمد نذیرحسین کی طرف سے مولانا احمد علی سہارنپوری کے نام۔ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ دین خیر خواہی کا نام ہے، سو امر نبوی کا اتباع کرتے ہوئے جناب کی خیر خواہی مطلوب ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ انسان کے گناہ گار ہونے کےلیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بلاتحقیق) آگے نقل کردے۔ اس حدیث نبوی کے پیش نظر میں آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ آپ نے بخاری شریف کی ایک حدیث، کہ جب نماز کی تکبیر ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی، کے حاشیے میں بیہقی کے حوالے سے اپنے استاد محترم مولانا محمد اسحاق کا قول نقل کیا ہے جس سے نماز فجر کی جماعت کھڑے ہونے کے باوجود سنت فجر پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ آپ کی اس بات کو قابل اعتنا سمجھتے ہوئے بہت سے طلبہ بلکہ بعض اکابر اہل علم کا یہ عمل ہے کہ ایک طرف فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے اور دوسری طرف وہ فجر کی سنتیں پڑھتے رہتے ہیں اور وہ نماز فجر کے فوت ہونے کی کوئی پروا نہیں کرتے، حالانکہ پیش کردہ روایت کہ آخر میں استثنائی جملے کا اضافہ جو آپ کی دلیل ہے وہ بے بنیاد ہے اور محققین ثقات نے اسے ناقابل اعتبار قرار دیا ہے، خاص طور پر خود امام بیہقی نے اس کی تردید فرمائی ہے۔ ان کے نزدیک حدیث صحیح کے آخر میں مذکورہ اضافہ عباد بن کثیر اور حجاج بن نصر کی طرف سے وضع کردہ ہے۔ فاضل مکرم! میرا گمان ہے کہ آپ نے اپنے استاذ مکرم سے امام بیہقی کا نقل کردہ کلام پوری طرح سماعت نہیں فرمایا کیونکہ امام بیہقی خود فرماتے ہیں کہ یہ اضافہ بالکل بے اصل ہے یا پھر مولانا محمد اسحاق کی طرف سے ضعف مزاج کی وجہ سے نقل کرنے میں تسامح ہوا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ثقات محققین نے ان الفاظ کے اضافے کو باطل قرار دیا ہے، جیسا کہ شیخ سلام اللہ شرح موطا میں لکھتے ہیں: ”مسلم بن خالد نے عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی تو آپ سے عرض کیا گیا کہ فجر کی سنت پڑھنی بھی درست نہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”ہاں، جب فرض نماز کی تکبیر ہوجائے تو کوئی نماز حتی کہ فجر کی دوسنت پڑھنا بھی جائز نہیں۔ “ اس روایت کو ابن عدی نے حسن سند سے بیان کیا ہے۔ ایک روایت میں فجر کی دو سنت ادا کرنے کا استثنا ہے۔ امام بیہقی نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ اضافہ بے بنیاد ہے۔ شیخ نورالدین نے بھی اس اضافہ کو وضع کردہ قرار دیا ہے اور دوسری کتب موضوعات میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔ ”ایسے حالات میں حفاظت دین کے پیش نظر اپ کے لیے ضروری ہے کہ ثقات محققین کی کتب سے اس اضافے کی صحت کو ثابت کریں یا پھر اپنے موقف سے رجوع کرکے اپنے طلبہ کو مطلع کریں کہ یہ اضافہ مردود اور ناقابل عمل ہے، نیز اس کے مسنون ہونے کا عقیدہ باطل ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ جواب باصواب سے ضرور مطلع فرمائیں گے تا کہ غفلت شعار لوگوں کی تنبیہ اور جہالت پیشہ لوگوں کے لیے بیداری کا باعث ہو۔ والسلام مع الا حترام۔ (4) ہماری معلومات کے مطابق مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی نے یہ خط 1293 میں مولانا احمد علی سہارنپوری کو لکھا اور انھوں نے اسے وصول
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 663