الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
102. . بَابُ : مَا جَاءَ فِيمَا يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ
102. باب: فجر کی سنتوں میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 1150
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ"، وَكَانَ يَقُولُ:" نِعْمَ، السُّورَتَانِ هُمَا يُقْرَأُ بِهِمَا فِي رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے تھے، اور کہتے تھے کہ یہ دونوں سورتیں جو فجر کی دونوں رکعتوں میں پڑھی جاتی ہیں کیا ہی بہتر ہیں ایک: «قل هو الله أحد»  دوسری «قل يا أيها الكافرون» ۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1150]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16216، ومصباح الزجاجة: 410)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 12 (619)، سنن ابی داود/الصلاة 290 (1255)، سنن النسائی/الافتتاح 40 (947)، موطا امام مالک/صلاة اللیل 5 (29)، مسند احمد (6/165، 183، 186، 235) سنن الدارمی/الصلا ة146 (1482) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
الجريري اِختلط وسماع يزيد بن ھارون وإسحاق الأزرق منه بعد اختلاطه (التقييد والإيضاح ص 427)
وانظر ضعيف سنن أبي داود (1555)
وللحديث شواھد
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 418

   سنن ابن ماجهيصلي ركعتين قبل الفجر وكان يقول نعم السورتان هما يقرأ بهما في ركعتي الفجر قل هو الله أحد و قل يا أيها الكافرون

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1150 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1150  
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکوہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة، مسند لإمام أحمد بن حنبل 149، 148/43 والصحیحة، رقم الحدیث: 646)
 نیز دکتور بشار عواد اس حدیث کی تحقیق میں لکھتے ہیں۔
کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
لیکن متناً صحیح ہے۔
کیونکہ اس سے قبل روایات میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے دیکھئے: (سنن ابن ماجة، بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 1150)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1150