الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
90. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلاَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
90. باب: نماز جمعہ پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 1119
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، أَنْبَأَنَا ضَمْرَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَتَبَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ إِلَى النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، أَخْبِرْنَا بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مَعَ سُورَةِ الْجُمُعَةِ، قَالَ:" كَانَ يَقْرَأُ فِيهَا: هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ".
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ضحاک (احنف) بن قیس نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو لکھا کہ آپ ہمیں بتائیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز جمعہ میں سورۃ الجمعہ کے ساتھ اور کون سی سورت پڑھتے تھے؟ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم   «هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1119]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجمعة 16 (878)، سنن ابی داود/الصلاة 242 (1123)، سنن النسائی/الجمعة 39 (1424)، (تحفة الأشراف: 11634)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجمعة 9 (19)، مسند احمد (4/270، 277، سنن الدارمی/الصلاة 203 (1607، 1608) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   سنن النسائى الصغرىيقرأ هل أتاك حديث الغاشية
   صحيح مسلميقرأ هل أتاك
   سنن ابن ماجهيقرأ فيها هل أتاك حديث الغاشية

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1119 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1119  
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اس میں جمعے کی نماز میں سورۃ غاشیہ کی تلاوت کا ذکر ہے۔
جب کہ گزشتہ حدیث میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقون کا ذکر ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سورتوں کی تلاوت میں اختیار ہے۔

(2)
تحریری طور پر مسئلہ پوچھنا اور بتانا درست ہے۔

(3)
تحریر بھی اسی طرح قابل اعتماد ہے۔
جس طرح براہ راست سنی ہوئی حدیث بشرط یہ کہ یقین ہو یہ تحریر فلاں صاحب ہی کی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1119