عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم بالوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹیں اور زمین پر چلنے کے سبب دوبارہ وضو نہ کریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1041]
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر وضو کر کے زمین پر چلیں، اور پاؤں یا کپڑوں میں کوئی نجاست اور گندگی لگ جائے، تو وضو کا دہرانا ضروری نہیں صرف انہیں دھو ڈالنا کافی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (204) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 414
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1041
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک سنداً ضعیف ہے جبکہ معناً صحیح ہے کیونکہ اس روایت میں بیان کردہ باتیں دوسری احادیث سے ثابت ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے اسے شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الارواء: 198/1، حدیث: 183)
(2) اگر پاؤں ناپاک ہوجایئں تو صرف پاؤں دھولیے جایئں پورا وضو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں اوراگر نجاست ظاہر نہ ہو تو محض جگہ کے ناپاک ہونے کے شک کی بنیاد پر پاؤں دھونے کا تکلف نہیں کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1041
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 204
´نجاست اور گندگی پر چلے تو کیا حکم ہے؟` «. . . قَالَ عَبْدُ اللَّهِ كُنَّا لَا نَتَوَضَّأُ مِنْ مَوْطِئٍ، وَلَا نَكُفُّ شَعْرًا وَلَا ثَوْبًا . . .» ”. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم راستہ میں چل کر پاؤں نہیں دھلتے تھے، اور نہ ہی ہم بالوں اور کپڑوں کو سمیٹتے تھے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 204]
فوائد و مسائل: یہ روایت بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہے، اس میں بیان کردہ باتیں دوسری احادیث سے بھی ثابت ہیں۔ ➊ انسان اگر گندگی اور نجاست پر سے گزرے اور بعد میں خشک زمین پر چلے اس طرح کہ سب کچھ اتر جائے، تو جسم اور کپڑا پاک ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کا جرم (وجود) باقی رہے تو دھونا ضروری ہو گا۔ چمڑے کے موزے اور جوتے کو زمین پر رگڑنا ہی کافی ہوتا ہے۔ ➋ اثنائے نماز میں بالوں اور کپڑوں کو ان کی ہیئت سے سمیٹنا جائز نہیں، زمین پر لگتے ہیں تو لگنے دیں، البتہ سر یا کندھے کے کپڑے کا لٹکانا (سدل کرنا) جائز نہیں ہے، اسے لپیٹ لینا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 204