حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے شبث بن ربعی کو اپنے آگے تھوکتے ہوئے دیکھا تو کہا: شبث! اپنے آگے نہ تھوکو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرماتے تھے، اور کہتے تھے: ”آدمی جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو جب تک وہ نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے، یہاں تک کہ نماز پڑھ کر لوٹ جائے، یا اسے برا حدث ہو جائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1023]
وضاحت: ۱؎: برے حدث سے مراد کوئی نیا امر اور نئی بات، جو خشوع کے خلاف ہو جیسے سامنے تھوکنا، یا اس سے مراد ہوا خارج ہونا ہے جس سے انسان کی پاکی ختم ہو جاتی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1023
اردو حاشہ: فائدہ: بُرا کام کرنے سے مراد ایسا کام ہے جو نماز کےادب کے خلاف ہو مثلاً سامنے تھوکنا، گوز مارنا، کپڑوں یا کنکریوں سے کھیلنا، مزید فوائد کے لئے ملاحظہ کیجئے، حدیث: 763)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1023
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 483
´اللہ تعالیٰ کا نمازی کی طرف متوجہ ہونا` «. . . - " إن الرجل إذا قام يصلي أقبل الله إليه بوجهه حتى ينقلب أو يحدث حدث سوء . . . .» ”. . . سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے شبث بن ربعی کو (نماز میں) اپنے سامنے تھوکتے دیکھا تو اسے کہا: شبث! اپنے سامنے نہ تھوکا کر، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ”جب آدمی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے چہرے کے ساتھ اس کی طرف (اس وقت تک) متوجہ رہتا ہے، جب تک وہ سلام نہیں پھیرتا یا کوئی برا فعل نہیں کرتا . . .“[سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة: 483]
� فوائد و مسائل اس میں نمازی کی قدر و منزلت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنا رخ انور اس کی طرف پھیر دیتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی طور پر یکسوئی اختیار کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بےتوجہی اور برائی سے نفرت ہے۔ نیز اس حدیث سے نمازی کو ضرورت کے مطابق تھوکنے کی گنجائش ملتی ہے، اس پر تفصیلی بحث یہ ہے۔ عصر حاضر میں مساجد کی خوبصورت عمارتوں اور ان میں بچھی ہوئی خوبصورت چٹائیوں اور قالینوں کی وجہ سے درج بالا حدیث کو سمجھنے میں دقت پیش آئی ہے۔ یہ احادیث اس وقت بیان کی گئی تھیں، جب مساجد کا فرش نرم مٹی اور ریت پر مشتمل ہوتا تھا اور ان میں بچھانے کے لیے صفیں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ درحقیقت مسئلہ یوں ہے کہ بوقت ضرورت مسجد میں تھوکنا جائز ہے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی قبلہ والی سمت تھوک دیکھا، جو آپ پر گراں گزرا، بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صاف کیا اور فرمایا: «ان احدكم اذا قام فى صلاته فانما يناجي ربه، فلا يبزقن فى قبلته ولكن عن يساره او تحت قدمه»[بخارى]”جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کر رہا ہوتا ہے، اس لیے وہ قبلہ والی سمت نہ تھوکا کرے، البتہ بائیں جانب یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔“ پھر (تیسرا طریقہ بیان کرتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا، اس میں تھوکا اور اس کو مل دیا اور فرمایا: ”یا پھر اس طرح کر لیا کرے۔“ اس موضوع پر دلالت کرنے والی کئی احادیث ہیں، لیکن درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رخصت اس وقت ہے جب آدمی نماز پڑھ رہا ہو اور اسے مجبوراً تھوکنا پڑ جائے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «البزاق فى المسجد خطيئة و كفارتها دفنها»[بخاری]”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ تھوک کو دفن کرنا ہے۔“ رہا مسئلہ قبلہ والی سمت میں تھوکنے کا، تو وہ بھی منع ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے پتہ چلتا ہے، نیز اس موضوع پر کئی دوسری احادیث موجود ہیں. بہرحال مساجد کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس رخصت پرعمل کرنے سے گریز کرنا ہی بہتر ہے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 483