1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الزكاة
کتاب: زکوٰۃ کا بیان
297. باب الحث على الصدقة ولو بشق تمرة أو كلمة طيبة وأنها حجاب من النار
297. باب: ایک کھجور یا کام کی بات بھی صدقہ اور دوزخ سے آڑ ہے
حدیث نمبر: 597
597 صحيح حديث عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَسَيُكَلِّمُهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَيْسَ بَيْنَ اللهِ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ، ثُمَّ يَنْظُرُ فَلاَ يَرَى شَيْئًا قدَّامَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَتَسْتَقْبِلُهُ النَّارُ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَّقِيَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ وَعَنْهُ أَيْضًا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اتَّقُوا النَّارَ، ثُمَّ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ؛ ثُمَّ قَالَ: اتَّقُوا النَّارَ، ثُمَّ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ، ثَلاَثًا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا ثُمَّ قَالَ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ
سیّدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں ہر ہر فرد سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس طرح کلام کرے گا کہ اللہ کے اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا پھر وہ دیکھے گا تو اس کے آگے کوئی چیز نظر نہیں آئے گی پھر وہ اپنے سامنے دیکھے گا اور اس کے سامنے آگ ہو گی پس تم میں سے جو شخص بھی چاہے کہ وہ آگ سے بچے تو وہ راہ خدا میں خیر خیرات کرتا رہے خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ سے ہی ممکن ہو سیّدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم سے بچو پھر آپ نے چہرہ پھیر لیا پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو اور پھر اس کے بعد چہرہ مبارک پھیر لیا پھر فرمایا جہنم سے بچو تین مرتبہ آپ نے ایسا ہی کیا ہم نے اس سے یہ خیال کیا کہ آپ جہنم کو دیکھ رہے ہیں پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو سکے اور جسے یہ بھی نہ ملے تو اسے (لوگوں میں) کسی اچھی بات کہنے کے ذریعہ سے ہی (جہنم سے) بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 597]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 49 باب من نوقش الحساب عذِّب»

وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو وھب اور ابو طریف تھی۔ آپ کے والد حاتم کی سخاوت آج بھی ضرب المثل ہے۔ ساتویں سال کے وسط میں وفد کی شکل میں تشریف لائے تھے۔ پہلے راسخ العقیدہ نصرانی تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا احترام اور عزت کی۔ جب لوگ مرتد ہوئے تو یہ اسلام پر ثابت قدم رہے تھے۔ اور اپنی قوم کی زکوٰۃ سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پہنچائی۔ عراق کی فتح میں شامل تھے پھر کوفہ میں رہے اور جنگ صفین میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ ۶۶ہجری میں ۱۲۰سال کی عمر میں وفات پائی۔