عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں ”اگر تم کو یتیموں میں انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو جو عورتیں پسند آئیں دو دو تین تین چار چار نکاح میں لاؤ“(نساء: ۳) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میرے بھانجے یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی محافظ رشتہ دار جیسے چچیرا بھائی پھوپھی زاد یا ماموں زاد بھائی کی پرورش میں ہو اور ترکے کے مال میں اس کی ساجھی ہو اور وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی پر فریفتہ ہو کر اس سے نکاح کر لینا چاہے، لیکن پورا مہر انصاف سے جتنا اس کو اور جگہ ملتا وہ نہ دے تو اسے اس سے منع کر دیا گیا کہ ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ان کے ولی انصاف کر سکیں اور ان کی حسبِ حیثیت بہتر سے بہتر طرزِ عمل مہر کے بارے میں اختیار کریں تو اس صورت میں نکاح کرنے کی اجازت ہے اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے سوا جو بھی عورتیں انھیں پسند ہوں ان سے وہ نکاح کر سکتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔ پھر لوگوں نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد (ایسی لڑکیوں سے نکاح کی اجازت کے بارے میں) مسئلہ پوچھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ”تجھ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں، تو کہہ دے کہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے اور انہیں نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو اور کمزور بچوں کے بارے میں اور اس بارے میں کہ یتیموں کی کار گذاری انصاف کے ساتھ کرو، تم جو نیک کام کرو بے شبہ اللہ اسے پوری طرح جاننے والا ہے۔ (نساء: ۱۲۷) یہ جو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر پڑھی جاتی ہیں“ اس سے مراد پہلی آیت ہے یعنی اگر تم کو یتیموں میں انصاف نہ ہو سکنے کا ڈر ہو تو دوسری عورتیں جو بھلی لگیں ان سے نکاح کر لو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یہ جو اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا اور تم انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو، اس سے یہ غرض ہے کہ جو یتیم لڑکی تمھاری پرورش میں ہو اور مال اور جمال کم رکھتی ہو اس سے تو تم نفرت کرتے ہو اور اس لیے جس یتیم لڑکی کے مال اور جمال میں تم کو رغبت ہو اس سے بھی نکاح نہ کرو مگر اس صورت میں جب انصاف کے ساتھ ان کا پورا مہر دینا کرو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب التفسير/حدیث: 1896]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 47 كتاب الشركة: 7 باب شركة اليتيم وأهل الميراث»