1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الزهد والرقائق
کتاب: دنیا سے نفرت دلانے اور دل کو نرم کرنے والی احادیث کا بیان
977. باب في حديث الهجرة
977. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ہجرت
حدیث نمبر: 1892
1892 صحيح حديث أَبِي بَكْرٍ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: جَاءَ أَبُو بَكْرٍ، إِلى أَبِي فِي مَنْزِلِهِ فَاشْتَرَى مِنْهُ رَحْلاً فَقَالَ لِعَازِبٍ: ابْعَثِ ابْنَكَ يَحْمِلُهُ مَعِي قَالَ: فَحَمَلْتُهُ مَعَهُ وَخَرَجَ أَبِي يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ فَقَالَ لَهُ أَبِي: يَا أَبَا بَكْرٍ حَدِّثْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا حِينَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَعَمْ أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا، وَمِنَ الْغَدِ، حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَخَلاَ الطَّريقُ، لاَ يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ، لَهَا ظِلٌّ، لَمْ تَاتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ فَنَزَلْنَا عِنْدَهُ، وَسَوَّيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانًا بِيَدِي يَنَامُ عَلَيْهِ وَبَسَطْتُ فِيهِ فَرْوَةً وَقُلْتُ: نَمْ يَا رَسُولَ اللهِ وَأَنَا أَنْفُضُ لَكَ مَا حَوْلَكَ، فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ، فَإِذَا أَنَا بِرَاعٍ مُقْبِلٍ بَغَنَمِهِ إِلَى الصَّخْرَةِ، يُرِيدُ مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي أَرَدْنَا فَقُلْتُ: لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلاَمُ فَقَالَ: لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ (أَوْ مَكَّةَ) قُلْتُ: أَفِي غَنَمِكَ لَبَنٌ قَالَ: نَعَمْ قلْتُ: أَفَتَحْلُبُ قَالَ: نَعَمْ فَأَخَذَ شَاةً فَقُلْتُ: انْفُضِ الضَّرْعَ مِنَ التُّرَابِ وَالشَّعَرِ وَالْقَذَى (قَالَ الرَّاوِي: فَرَأَيْتُ الْبَرَاءَ يَضْرِبُ إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الأُخْرَى، يَنْفُضُ) فَحَلَبَ فِي قَعْبٍ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ، وَمَعِي إِدَاوَةٌ حَمَلْتُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَرْتَوِي مِنْهَا، يَشْرَبُ وَيَتَوَضَّأُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ فَوَافَقْتُهُ حِينَ اسْتَيْقَظَ فَصَبَبْتُ مِنَ الْمَاءِ عَلَى اللَّبَنِ، حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيلِ قُلْتُ: بَلَى قَالَ: فَارْتَحَلْنَا بَعْدَ مَا مَالَتِ الشَّمْسُ وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ فَقُلْتُ: أُتِينَا يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ: لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَدَعَا عَلَيْهِ النَبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَارْتَطَمَتْ بِهِ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا، أُرَى فِي جَلَدٍ مِنَ الأَرْضِ فَقَالَ: إِنِّي أُرَاكُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَيَّ فَادْعُوَا لِي فَاللهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ فَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَجَا فَجَعَلَ لاَ يَلْقَى أَحَدًا إِلاَّ قَالَ: كَفَيْتُكُمْ مَا هُنَا فَلاَ يَلْقَى أَحَدًا إِلاَّ رَدَّهُ قَالَ: وَوَفى لَنَا
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے والد کے پاس ان کے گھر آئے اور ان سے ایک پالان خریدا، پھر انہوں نے میرے والد سے کہا کہ اپنے بیٹے کے ذریعے اسے میرے ساتھ بھیج دیں۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، چنانچہ میں اس کجاوے کو اٹھا کر آپ کے ساتھ چلا اور میرے والد اس کی قیمت کے روپے پرکھوانے لگے۔ میرے والد نے ان سے پوچھا: اے ابو بکر! مجھے وہ واقعہ سنائیں جب آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار ثور سے ہجرت کی تھی تو آپ دونوں نے وہ وقت کیسے گزارا تھا؟ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رات بھر تو ہم چلتے رہے اور دوسرے دن صبح کو بھی لیکن جب دوپہر کا وقت ہوا اور راستہ بالکل سنسان پڑ گیا کہ کوئی بھی آدمی گزرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا تھا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی، اس کے سائے میں دھوپ نہیں تھی۔ ہم وہاں اتر گئے اور میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک جگہ اپنے ہاتھ سے ٹھیک کر دی اور ایک چادر وہاں بچھا دی، پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ یہاں آرام فرمائیں، میں نگرانی کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور چاروں طرف حالات دیکھنے کے لیے نکلا۔ اتفاق سے مجھے ایک چرواہا ملا۔ وہ بھی اپنی بکریوں کے ریوڑ کو اسی چٹان کے سائے میں لانا چاہتا تھا جس کے نیچے ہم نے پڑاؤ ڈالا تھا، وہی اس کا بھی ارادہ تھا، میں نے پوچھا کہ تو کس قبیلے سے ہے؟ اس نے بتایا کہ مدینہ یا (راوی نے کہا کہ) مکہ کے فلاں شخص سے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تیری بکریوں سے دودھ مل سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ میں نے پوچھا: کیا ہمارے لئے تو دودھ نکال سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں، چنانچہ وہ ایک بکری پکڑ کے لایا۔ میں نے اس سے کہا کہ پہلے تھن کو مٹی، بال اور دوسری گندگیوں سے صاف کر لیا۔ ابو اسحاق راوی نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا کر تھن کو جھاڑنے کی صورت بیان کیا۔ اس نے لکڑی کے ایک پیالے میں دودھ نکالا۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک برتن اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔ آپ اس سے پانی پیا کرتے تھے اور وضو بھی کر لیتے۔ پھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (آپ سو رہے تھے) میں آپ کو جگانا پسند نہیں کرتا تھا لیکن بعد میں جب میں آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے، میں نے پہلے دودھ کے برتن پر پانی بہایا جب اس کے نیچے کا حصہ ٹھنڈا ہو گیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! دودھ پی لیجئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا۔ جس سے مجھے خوشی حاصل ہوئی۔ پھر آپ نے فرمایاکہ ابھی کوچ کرنے کا وقت نہیں آیا؟ میں نے عرض کیا:آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سورج ڈھل گیا تو ہم نے کوچ کیا۔ بعد میں سراقہ بن مالک ہمارا پیچھا کرتا ہوا یہیں پہنچا۔ میں نے کہا حضور! اب تو یہ ہمارے قریب ہی پہنچ گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ آپ نے پھر اس کے لیے بددعا کی اور اس کا گھوڑا اسے لئے ہوئے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ میرا خیال ہے کہ زمین بڑی سخت تھی، یہ شک (راوی حدیث) زہیر کو تھا۔ سراقہ نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں نے میرے لئے بددعا کی ہے، اگر اب آپ لوگ میرے لئے (اس مصیبت سے نجات کی) دعا کر دیں تو اللہ کی قسم میں آپ لوگوں کی تلاش میں آنے والے تمام لوگوں کو واپس لوٹا دوں گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دعا کی تو وہ نجات پا گیا۔ پھر تو جو بھی اسے راستے میں ملتا اس سے وہ کہتا تھا کہ میں بہت تلاش کر چکا ہوں، قطعی طور پر وہ ادھر نہیں ہیں۔ اس طرح جو بھی ملتا اسے وہ واپس اپنے ساتھ لے جاتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1892]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 25 باب علامات النبوة في الإسلام»