حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور زبیر اور مقداد بن اسود (رضی اللہ عنہ) کو ایک مہم پر بھیجا اور آپ نے فرمایا کہ جب تم لوگ روضۂ خاخ(جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) پر پہنچ جاؤ تو وہاں ایک بوڑھی عورت تمہیں اونٹ پر سوار ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہو گا، تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا۔ ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لئے جا رہے تھے۔ آخر ہم روضۂ خاخ پر پہنچ گئے اور وہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں لیکن جب ہم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تونے خط نہ نکالا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتار دیں گے۔ اس پر اس نے خط اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے نکال کر دیا، اور ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے، اس کا مضمون یہ تھا، حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے چند آدمیوں کی طرف، اس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر دی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا واقعہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے بارے میں عجلت سے کام نہ لیجئے۔ میری حیثیت (مکہ میں) یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہنا سہنا اختیار کر لیا تھا، ان سے رشتہ ناطہ میرا کچھ بھی نہ تھا۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی تو مکہ میں سب کی رشتہ داری ہے اور مکہ والے اسی وجہ سے ان کے عزیزوں کی اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کریں گے مگر مکہ والوں کے ساتھ میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ ان پر کوئی احسان کر دوں جس سے اثر لے کر وہ میرے بھی عزیزوں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر یا ارتداد کی وجہ سے ہرگز نہیں کیا ہے اور نہ اسلام کے بعد کفر سے خوش ہو کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا: حاطب نے سچ کہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! اجازت دیجئے میں اس منافق کا سر اڑا دوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں، یہ بدر کی لڑائی میں (مسلمانوں کے ساتھ مل کر) لڑے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں، اللہ تعالیٰ مجاہدین بدر کے احوال (موت تک کے) پہلے ہی سے جانتا تھا، اور وہ خود ہی فرما چکا ہے کہ ”تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں“۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1622]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 141 باب الجاسوس وقول الله تعالى (لا تتخذوا عدوّي وعدوّكم أولياء»
وضاحت: خط کا مضمون یہ تھا ”اما بعد! قریش کے لوگو تم کو معلوم رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لشکر جرار لیے ہوئے تمہارے سر پر آ رہے ہیں۔ اگر وہ اکیلے بھی آئیں تو پھر بھی اللہ ان کی مدد کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ اب تم اپنا بچاؤ کر لو۔“(راز)