1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب فضائل الصحابة
کتاب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فضائل
832. باب من فضائل عبد الله بن سلام رضی اللہ عنہ
832. باب: حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی خوبیاں
حدیث نمبر: 1615
1615 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلاَمٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ، فَدَخَلَ رَجُلٌ عَلَى وَجْهِهِ أَثَرُ الْخُشُوعِ فَقَالُوا: هذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، تَجَوَّزَ فِيهِمَا، ثُمَّ خَرَجَ وَتَبِعْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنَّكَ حِينَ دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ، قَالُوا: هذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ: وَاللهِ مَا يَنْبَغِي لأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ مَا لاَ يَعْلَمُ وَسَأُحَدِّثُكَ لِمَ ذَاكَ رَأَيْتُ رُؤْيَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ وَرَأَيْتُ كَأَّنِّي فِي رَوْضَةٍ (ذَكَرَ مِنْ سَعَتِهَا وَخُضْرَتِهَا) وَسْطَهَا عَمُودٌ مِنْ حَدِيدٍ، أَسْفلُهُ فِي الأَرْضِ وَأَعْلاَهُ فِي السَمَاءِ فِي أَعْلاَهُ عُرْوَةٌ، فَقِيلَ لَهُ ارْقَهْ قُلْتُ لاَ أَسْتَطِيعُ فَأَتَانِي مِنْصَفٌ فَرَفَعَ ثِيَابِي مِنْ خَلْفِي فَرَقِيتُ، حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلاَهَا فَأَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ فَقِيلَ لَهُ: اسْتَمْسِكْ فَاسْتَيْقَظْتُ، وَإِنَّهَا لَفِي يَدِي فَقَصَصْتهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تِلْكَ الرَّوْضَةُ الإِسْلاَمُ، وَذَلِكَ الْعَمُودُ عَمُودُ الإِسْلاَمِ، وِتِلْكَ الْعُرْوَةُ عُرْوَةُ الوُثْقى فَأَنْتَ عَلَى الإِسْلاَمِ حَتَّى تَمُوتَ وَذَاكَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلاَمٍ
قیس بن عبادہ نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ مسجد میں داخل ہوئے جن کے چہرے پر خشوع و خضوع کے آثار ظاہر تھے لوگوں نے کہا: یہ بزرگ جنتی لوگوں میں ہیں، پھر انہوں نے دو رکعت نماز مختصر طریقہ پر پڑھی اور باہر نکل گئے۔ میں بھی ان کے پیچھے ہولیا اور عرض کی کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تھے تو لوگوں نے کہا کہ یہ بزرگ جنت والوں میں سے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا: خدا کی قسم! کسی کے لیے ایسی بات زبان سے نکالنا مناسب نہیں ہے جسے وہ نہ جانتا ہو اور میں تمہیں بتاؤں گا کہ ایسا کیوں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میں نے ایک خواب دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے بیان کیا، میں نے خواب یہ دیکھا تھا کہ جیسے میں ایک باغ میں ہوں، پھر انہوں نے اس کی وسعت اور اس کے سبزہ زاروں کا ذکر کیا اس باغ کے درمیان میں ایک لوہے کا کھمبا ہے جس کا نچلا حصہ زمین میں ہے اور اوپر کا آسمان پر اور اس کی چوٹی پر ایک گھنا درخت ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ اس پر چڑھ جاؤ میں نے کہا کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے اتنے میں ایک خادم آیا اور پیچھے سے میرے کپڑے اس نے اٹھائے تو میں چڑھ گیا اورجب میں اس کی چوٹی پر پہنچ گیا تو میں نے اس گھنے درخت کو پکڑ لیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ اس درخت کو پوری مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے۔ ابھی میں اسے اپنے ہاتھ سے پکڑے ہوئے تھا کہ میری نیند کھل گئی یہ خواب جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو باغ تم نے دیکھا ہے، وہ تو اسلام ہے اور اس میں ستون اسلام کا ستون ہے اور عروہ (گھنا درخت) عروۃ الوثقی ہے، اس لئے تم اسلام پر مرتے دم تک قائم رہو گے۔ یہ بزرگ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1615]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 19 باب مناقب عبد الله بن سلام رضي الله عنه»

وضاحت: راوي حدیث:… حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو یوسف تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو انہوں نے اسلام قبول کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی خوشخبری دی۔ ان کے اسلام لانے پر پورے گھر والے بھی مسلمان ہو گئے۔ بہت بڑے عالم تھے۔ نہاوند کی فتح میں شریک تھے۔ آپ نے ۴۳ ہجری کو وفات پائی۔