حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں برنی کھجور(کھجور کی ایک عمدہ قسم) لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انھوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی۔ اس کی دو صاع، اس کی ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں تاکہ ہم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ توبہ! توبہ! یہ تو سود ہے، بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر البتہ (اچھی کھجور) خریدنے کا ارادہ ہو تو (خراب) کھجور بیچ کر (اس کی قیمت سے) عمدہ خریدا کر۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1025]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 40 كتاب الوكالة: 11 باب إذا باع الوكيل شيئًا فاسدًا فبيعه مردود»
وضاحت: معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس میں کمی و بیشی سے لین دین سود میں داخل ہے۔ اس کی صورت یہ بتلائی گئی کہ گھٹیا جنس کو علیحدہ طور پر نقد بیچ کر اس کے روپوں سے وہی بڑھیا جنس خرید لی جائے۔ (راز)