سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان تم میں سے کسی ایک کے پاس اس کی نماز کے دوران آتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے وضو توڑ لیا ہے، تو اسےکہنا چاہیے کہ تُو نے جھوٹ کہا ہے سوائے اس کے کہ اپنے کان سے آواز سن لے یا اپنی ناک سے بُومحسوس کرلے۔ امام ابوبکر رحمہ اللّٰہ کہتےہیں کہ «فَلْیَقُلْ کَذَبْتَ» اسےکہنا چاہیے کہ ”تو نے جھوٹ بولا ہے۔“ اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ نمازی اپنے دل میں کہے (تا کہ اس کا وسوسہ دور ہو جائے) زبان سے نہ کہے کیونکہ نمازی کے لیے زبان سے «کَذَبْتَ» کہنا جائز نہیں ہے (یعنی اس کے لیے کلام کرنا منع ہے۔)[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَحْدَاثِ الْمُوجِبَةِ لِلْوُضُوءِ/حدیث: 29]
تخریج الحدیث: «اسناده، الضعيفه: 3018، سنن ابي داود، كتاب الصلاة، باب من قال يتم على أكبر ظنه، رقم الحديث: 1029، مسند احمد: 12/3، 37، 54، 10660، ابن ماجه: 1204، الترمذي: الصلوة، باب فيمن يشك فى الزيادة والنقصان رقم: 396»
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 29
فوائد:
➊ یہ احادیث دلیل ہیں کہ دوران نماز جب تک ہوا خارج ہونے کا یقین نہ ہو جائے، نماز ترک نہیں کرنی چاہیے اور جب ہوا خارج ہونے کی آواز سنے یا بُو آئے تو نماز توڑ کر نیا وضو کرنا چاہیے ان احادیث میں یہ حصہ نہیں ہے کہ ناقض وضو محض ہوا کا خارج ہوتا ہے بلکہ یہاں مقصود یہ ہے کہ نماز میں عموماً ہوا کے خارج ہونے سے ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن نماز میں ہوا کے قطعی خارج ہونے سے ہی وضو ٹوٹتا ہے۔
➋ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: جب کوئی شخص (نماز میں) بے وضو ہونے کا شک محسوس کرے تو اس پر وضو واجب نہیں تاوقتیکہ (بے وضو ہونے پر) اسے اتنا کامل یقین ہو کہ وہ (بے وضو ہونے پر) قسم کھا سکے اور جب عورت کی قبل (شرمگاہ) سے ہوا خارج ہو تو اس پر وضو کرنا واجب ہے، شافعی اور اسحٰق بن راہویہ کا بھی یہی موقف ہے۔ [ترمذي، تحت حديث: 75]
➌ امام بغوی ”شرح السنہ“ میں رقمطراز ہیں: احادیث الباب کا مفہوم یہ ہے کہ جب تک بے وضو ہونے کا کامل یقین نہ ہو نمازی نماز ترک نہ کرے۔ یہ مقصود نہیں ہے کہ ہوا خارج ہونے کی آواز سننا یا اس کی بدبو محسوس کرنا نماز میں بے وضو ہونے کی شرط ہے کیونکہ بعض لوگ بہرے ہوتے ہیں جو آواز نہیں سن سکتے اور بعض لوگ سونگھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں وہ ہوا خارج ہونے کی بدبو نہیں سونگھ سکتے۔ ایسے لوگوں کا وضو تب ٹوٹے گا جب وضو ٹوٹنے کا قطعی یقین ہو جائے۔ [تحفة الاحوذي: 180/1]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِى الْمَسْجِدِ فَوَجَدَ رِيحًا بَيْنَ البَتَيْهِ، فَلا يَخْرُجْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا» ”جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں ہو اور اپنی سرینوں کے درمیان ہوا محسوس کرے تو وہ مسجد سے نہ نکلے تاوقتیکہ وہ (ہوا کی) آواز نہ سن لے یا بدبو نہ پالے۔“[ترمذي: 75]
➍ امام نووی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: یہ حدیث اصول اسلام میں سے ایک اصل اور قواعد فقہ کا عظیم عقیدہ ہے کہ جب تک چیزوں کے حکم مخالف کا قطعی یقین نہ ہو چیزوں کا حکم اپنی اصل پر باقی رہتا ہے اور ان پر واقع ہونے والا شک چنداں ضرر رساں نہیں ہوتا اور مذکورہ باب میں بھی یہ حدیث بیان ہوئی ہے اسی قبیل سے ہے کہ جسے طہارت کا یقین اور بے وضو ہونے کا شک ہو، وہ طہارت پر ہی قائم ہے، خواہ یہ شک نماز کے اندر واقع ہوا ہو یا نماز سے باہر شافعیہ اور جمہور سلف و خلف کا یہی مذہب ہے۔ [نووي: 48/4]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَوَجَدَ حَرَكَةً . فِي دُبُرِهِ أَحْدَثَ أَوْ لَمْ يُحْدِثُ فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ فَلَا يَنْصَرِفَ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ ريحا» ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز ہی ہو اور وہ اپنی دبر میں حرکت محسوس کرے (اور یہ معلوم نہ ہو کہ) وہ بے وضو ہوا ہے یا نہیں اس پر (یہ فیصلہ کرنا) مشکل ہو جائے تو جب تک وہ (ہوا خارج ہونے کی) آواز سن نہ لے یا بو نہ پا لے نماز سے نہ پھرے۔ [ابو داؤد: 177، صحيح ابو داؤد: 169، صحيحه]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 29