بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 937]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2044)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/12) (ضعیف)» (ابوعثمان نہدی کی ملاقات بلال رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اتنی مہلت دیا کیجئے کہ میں سورۃ فاتحہ سے فارغ ہو جاؤں تاکہ آپ کی اور میری آمین ساتھ ہوا کرے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ بات مروان سے کہا کرتے تھے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح الثوري تابعه شعبة عند احمد (6/ 15 ح 23920 وسنده صحيح) وصححه ابن خزيمة (573) والحاكم علي شرط الشيخين (1/ 219 وقال: وأبو عثمان النهدي مخضرم، قد أدرك الطائفة الأولي من الصحابة) ووافقه الذھبي، قلت: رواية أبي عثمان النھدي عن بلال الحبشي محمولة علي السماع، انظر الجوھر النقي (2/ 23) قال معاذ: والثوري تابعه عباد بن عباد وأبو شھاب عبدربه بن نافع في مسائل حرب الكرماني (827، نسخه أخريٰ: 458، وسنده صحيح)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 937
937۔ اردو حاشیہ: یعنی نماز شروع ہو چکی تھی، وہ تاخیر سے آئے تو کہا: مجھے موقع دیجئے کہ میں بھی نماز میں مل کر آپ کے ساتھ آمین کہہ سکوں۔ اس کی سند مرسل ہے کہ ابوعثمان کی بلال رضی اللہ عنہ سے ملاقات میں کلام ہے۔ جبکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ اسے موصول قرار دیتے ہیں۔ [عون المعبود] بہرحال اگر امام کو کہہ دیا جائے کہ ذرا قرأت کو طویل کر دیں اور وہ اسے قبول کر لے تو کوئی حرج نہیں، صحیح بخاری میں ہے: «باب اذا قيل للمصلي تقدم اوانتظر فانتظر فلا باس»[صحيح بخاري كتاب العمل فى الصلواة باب 14]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 937