عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان «اللهم اغفر لي وارحمني وعافني واهدني وارزقني»”یعنی اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت دے، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق دے“ کہتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 850]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الصلاة 95 (284، 285)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 24 (898)، (تحفة الأشراف: 5475)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/315، 371) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (284) ابن ماجه (898) حبيب بن أبي ثابت مدلس وعنعن وقدثبت عن مكحول أنه كان يقولھا بين السجدتين نحو المعني (المعجم لابن المقرئ :1357 وسنده صحيح) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 43
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 850
850۔ اردو حاشیہ: اس دعا کے سنن ترمذی میں الفاظ یہ ہیں: «اللهم اغفر لي وارحمني وا جبرني واهدني وارزقني» «اجبرني» کا مفہوم ہے۔ اے للہ! ٹوٹی ہوئی حالت کو جوڑ دے۔ دیکھئے: [سنن تر مذي۔ الصلواة باب ما يقول بين السجدتين حديث 284] اس دعا کا پڑھنا سنت ہے مگر کچھ لوگ اس سے غافل ہیں بلکہ زیادہ ہی غافل ہیں۔ شیخ شوکانی اس پر اس انداز میں افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ لوگوں نے صحیح احادیث سے ثابت شدہ سنت کو چھوڑ رکھا ہے، اس میں ان کے محدث، فقیہ، مجتہد اور مقلد سبھی شریک ہیں، نہ معلوم یہ لوگ کس چیز پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ [نيل الاوطار293/2] سنن ابوداؤد کی ایک حدیث میں صرف «رب اغفر لي . رب اغفر لي» پڑھنے کا ذکر بھی آیا ہے۔ دیکھئے: حديث [878] شیخ ابن باز رحمہ اللہ اور کچھ دیگر علماء اور آئمہ کم از کم اتنا پڑھنے کو واجب کہتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 850
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 239
´نماز کی صفت کا بیان` «. . . وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان يقول بين السجدتين: «اللهم اغفر لي وارحمني واهدني وعافني وارزقني» . رواه الأربعة إلا النسائي واللفظ لأبي داود وصححه الحاكم. . . .» ”. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھتے تھے «اللهم اغفرلي وارحمني واهدني وعافني وارزقني» یا اللہ! میری پردہ پوشی فرما دے (مجھے بخش دے) مجھ پر رحم فرما۔ مجھے راہ ہدایت پر چلا (اور گامزن رکھ) مجھ سے درگزر فرما (معاف کر دے) مجھے رزق (حلال) عطا فرما۔ اسے نسائی کے علاوہ چاروں نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 239]
لغوی تشریح: «عَافِنِي» معافات سے ماخوذ ہے۔ یہ دعائیہ صیغہ ہے، یعنی امر، دعا کے لیے ہے۔ معنی یہ ہیں کہ مجھے سلامتی اور عافیت سے نواز۔
فوائد و مسائل: ➊ نماز میں مختلف مواقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف دعائیں منقول ہیں۔ اسی طرح دو سجدوں کے مابین جلسے کے موقع پر مذکورہ بالا دعا پڑھنا بھی منقول ہے۔ بعض روایات میں «وَارْفَعْنِي» اور بعض میں «وَاجْبُرْنِي» کا اضافہ بھی منقول ہے۔ [جامع الترمذي، الصلاة، حديث: 284، وسنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث: 898] اور بعض میں مختصراً «رَبِّ اغْفِرْلِي، رَبِّ اغْفِرْلِي» کے الفاظ پڑھنے کا ذکر آیا ہے۔ [سنن أبى داود، الصلاة، حديث: 874] ۔ اس لیے حسب حال جو دعا پڑھ لی جائے درست ہے۔ ➋ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے دعا کے الفاظ ذکر کرنے میں سہو ہوا ہے، دعا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس دعا کے الفاظ ابوداود کے ہیں جبکہ ابوداود میں «وَارْحَمْنِي» کے بعد «وَاهْدِنِي» کے بجائے «عَافِنِي» کا لفظ مذکور ہے۔ اور اسی طرح درست ہے۔ ➌ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ مذکورہ دعا مکحول رحمہ اللہ سے مقطوع روایت، یعنی ان کا اپنا قول صحیح سند سے منقول ہے۔ دیکھیے تحقیق وتخریج حدیث ہٰذا۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 73/5، وصفة الصلاة للألباني] بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 239
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث898
´دونوں سجدوں کے درمیان کیا پڑھے؟` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز میں دونوں سجدوں کے درمیان «رب اغفر لي وارحمني واجبرني وارزقني وارفعني»”اے میرے رب! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم کر، مجھ کو ضائع شدہ چیزوں کا بدلہ دیدے، مجھے رزق دے، اور مجھے بلندی عطا فرما“ پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 898]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھيے: (الموسوعة الحدیثة مسند إمام أحمد بن حنبل: 73/5، حدیث: 2895، وصفة الصلاة للألبانی، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشارعواد: 164، 163/2، حدیث: 898) بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
(2) یہ دعا قدرے مختلف الفاظ سے جامع الترمذی اور سنن ابوداؤد میں بھی موجود ہے۔ ذیل میں ان دونوں روایات کے مطابق بھی دعا درج کی جاتی ہے۔ تاکہ آ پ ان میں سے جس طریقے سے چاہیں دعا پڑھ سکیں۔
(الف) (اللهم اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاجْبُرْنِي، وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي،) (جامع الترمذي، الصلاة، باب ما يقول بين السجدتين، حديث: 284) ”اے اللہ! میری مغفرت فرما۔ مجھ پر رحم کر، میرے نقص دور فرما، مجھے ہدایت دے، اور مجھے رزق دے۔“
(ب) (اللهم اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَعَافِنِي، وَاجْبُرْنِي، وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي،) ”اے اللہ! میری مغفرت فرما۔ مجھ پر رحم کر۔ مجھے عافیت بخشا۔ مجھے ہدایت دے۔ اور مجھے رزق دے۔“ (سنن ابوداؤد، الصلاۃ، باب الدعاء بین السجدتین، حدیث: 850)
(3) اس دعا کا پڑھنا سنت ہے۔ مگر کچھ لوگ اس سے غافل ہیں۔ بلکہ زیادہ ہی غافل ہیں۔ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اس پر اس انداز میں افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ”لوگوں نے صحیح احادیث سے ثابت شدہ سنت کوچھوڑ رکھا ہے۔ اس میں ان کےمحدث فقیہ مجتہد اور مقلد سبھی شریک ہیں۔ نہ معلوم یہ لوگ کس چیز پر تکیے کئے ہوئے ہیں۔“(نیل الاوطار: 293/3) نیز شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ اور کچھ دیگر علماء اور ائمہ کم از کم (رَبِّ اغْفِرْ لِي) پڑھنے کو واجب قرار دیتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 898
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 284
´دونوں سجدوں کے درمیان کی دعا۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان «اللهم اغفر لي وارحمني واجبرني واهدني وارزقني»”اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، میرے نقصان کی تلافی فرما، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما“ کہتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 284]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھنا مسنون ہے، بعض روایات میں ((وَارْفَعْنِي)) کا اضافہ ہے اور بعض میں مختصراً ((رَبِّ اغْفِرْلِيْ)) کے الفاظ آئے ہیں، دوسری روایات میں الفاظ کچھ کمی بیشی ہے، اس لیے حسب حال جو بھی دعا پڑھ لی جائے درست ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 284