ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 756]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10314)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/110) (ضعیف)» (اس کے راوی عبدالرحمن بن اسحاق واسطی متروک ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد الرحمٰن بن إسحاق الكوفي الواسطي ضعيف (تق : 3799) ضعفه الجمهور وزياد : مجهول (تقريب التهذيب: 2078) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 40
الشيخ اسحاق سلفي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 756
احناف کی فقہ کی معتبر کتاب ھدایہ میں ہے کہ: «قال: ويعتمد بيده اليمنى على اليسرى تحت السرة، لقوله - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: إن من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة» ”کہ جناب علی سے مروی ہے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر زیر ناف رکھنا سنت ہے۔“ لیکن اس کی شرح ” البناية شرح الهداية “ میں علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «من حديث عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي عن زيادة بن زيد السوائي عن أبى جحيفة عن على - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أنه قال: السنة وضع الكف على الكف تحت السرة، وقال أحمد وأبو حاتم: عبد الرحمن بن الحارث أبو شيبة الواسطي، منكر الحديث. وقال ابن معين: ليس بشيء، وقال البخاري: فيه نظر، وزيادة بن زيد لا يعرف، وقال النووي فى الخلاصة فى " شرح مسلم ": هو حديث ضعيف متفق على ضعفه،» یعنی اس روایت کو عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي نے نقل کیا ہے۔ اور یہ امام احمد اور امام ابو حاتم نے اس راوی کو ”منکر الحدیث “ کہا ہے۔ اور امام ابن معین کہتے ہیں: یہ کوئی شئی نہیں، بخاری فرماتے ہیں:اس میں نظر ہے، اور علامہ نووی فرماتے ہیں: یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ عینی مزید لکھتے ہیں: «فإن قلت: كيف يكون الحديث حجة على الشافعي وهو حديث ضعيف لا يقاوم الحديث الصحيح والآثار التى احتج بها مالك والشافعي، هو حديث وائل بن حجر أخرجه ابن خزيمة فى " صحيحه " قال: صليت مع رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فوضع يده اليمنى على اليسرى على صدره» زیر ناف ہاتھ باندھنے کی جناب علی رضی اللہ عنہ والی حدیث امام مالک و امام شافعی کے خلاف کیسے دلیل بن سکتی ہے جبکہ وہ نہایت ضعیف روایت ہے، اور یہ اس صحیح حدیث اور آثار کے مقابلہ نہیں کر سکتی جو امام مالک و امام شافعی کی دلیل ہیں۔ ان کی دلیل صحیح ابن خزیمہ میں سیدنا وائل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھے۔ “
محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 31419
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 756
756۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث ضعیف ہے۔ ◈ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق کوفی ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اسے ضعیف کہتے ہیں۔ ◈ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ”اس میں نظر ہے۔“(یعنی کمزور راوی ہے۔) ◈امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ”یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے۔“ اور اس سے بعد والی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ انہوں نے ناف سے اوپر ہاتھ رکھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 756