عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”تین آدمیوں کی نماز اللہ قبول نہیں فرماتا: ایک تو وہ شخص جو لوگوں کی امامت کرے اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ شخص جو نماز میں پیچھے آئے، پیچھے آنا یہ ہے کہ جماعت فوت ہو جانے یا وقت گزر جانے کے بعد آئے، اور تیسرا وہ شخص جو اپنے آزاد کئے ہوئے شخص کو دوبارہ غلام بنا لے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 593]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 43 (970)، (تحفة الأشراف: 8903) (ضعیف)» (اس کے دو راوی عبدالرحمن افریقی اور عمران ضعیف ہیں، مگر اس کا پہلا جزء شواہد سے تقویت پاکر صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا الشطر الأول فصحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (970) عبد الرحمٰن بن زياد الإفريقي ضعيف وعمران بن عبد ٍالمعافري : ضعيف (تقريب : 5160) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 34
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 593
593۔ اردو حاشیہ: ➊ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک اس کا پہلا حصہ صحیح ہے۔ یعنی جس امام پر اس کی قوم راضی نہ ہو، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اور امام کی ناپسندیدگی کی وجہ اگر واقعی شرعی ہو تو یہ وعید ہو گی۔ مثلاً اس منصب پر جبراً مسلط ہونا، نماز بےوقت اور خلاف سنت پڑھانا یا قرأت میں لحن فحش کرنا وغیرہ۔ لیکن اگر ناراضی کے اسباب ذاتی قسم کے ہوں یا فی الواقع شرعی نہ ہوں، تو اس وعید سے بری ہو گا۔ نیز متدین (دیندار) افراد اور ان کی کثیر تعداد کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ چند ایک افراد کی ناراضگی معتبر نہیں ہے۔ چونکہ امام کو مختلف قسم کے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے، جن کی طبائع ازواق میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس لئے اسے علم، حلم اور حکمت سے کام لیتے رہنا چاہیے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کا بیان قرآن کریم میں آیا ہے: «وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ»[آل عمران۔ 159] ”اگر آپ تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ سے بکھر جاتے۔“ ➋ دوسرے دو امور اگرچہ سنداً کمزور ہیں، مگر انتہائی اہم ہیں۔ یعنی جو شخص عادتاً جماعت سے پیچھے رہتا ہو یا بردہ فروشی کا کام کرتا ہو، یہ کبیرہ گناہ ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 593
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث970
´لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ امام کا کیا حکم ہے؟` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی: ایک تو وہ جو لوگوں کی امامت کرے جب کہ لوگ اس کو ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ جو نماز میں ہمیشہ پیچھے (یعنی نماز کا وقت فوت ہو جانے کے بعد) آتا ہو، اور تیسرا وہ جو کسی آزاد کو غلام بنا لے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 970]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے پہلے حصے ”یعنی اس شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ جولوگوں کا امام بن جائے حالانکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں۔“ کو صحیح قرار دیا ہے۔ حدیث کا یہ جملہ اگلی حدیث میں بھی آ رہا ہے جسے ہمارے محقق نے حسن قرار دیا ہے بنا بریں یہ جملہ قابل عمل اور قابل حجت ہے تفصیل کےلئے دیکھئے: (صحیح الترغیب للأبانی، رقم: 486، 483 وضعیف سنن ابن ماجه، رقم: 205)
(2) امام کے لئے یہ وعید اس وقت ہے جب نمازیوں کی اس سے ناراضی کی شرعاً معقول وجہ ہو مثلا وہ کسی اور اہلیت رکھنےوالے آدمی کو امام مقرر کرنا چاہتے ہوں یا اس کے فسق وفجور کی وجہ سے اسے امام بنانا پسند نہ کرتے ہوں۔ لیکن اگر وہ اس لئے ناراض ہوں کہ امام انھیں شرک وبدعت سے یا غلط کاریوں سے منع کرتا ہے۔ یا سنت کے مطابق اطمینان سے اور اول وقت نماز پڑھاتا ہے۔ یا اس قسم کی کوئی وجہ ہو تو امام گناہگار نہیں۔ مقتدیوں کی غلطی ہے۔ انھیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔
(3) آخری وقت میں نماز ادا کرنے اور کسی آزاد آدمی کو اغوا کرکے غلام بنا لینے کا گناہ دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ تاہم نماز کے قبول نہ ہونے کی روایت صحیح نہیں۔ جیسے کہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت کی ہے۔
(4) بلاعذر نماز آخر وقت میں پڑھنے پر وعید آئی ہے۔ نبی ﷺنے فرمایا۔ ”یہ منافق کی نماز ہے وہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ جب وہ (غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے اور) شیطان کے سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے۔ تو یہ اٹھ کرچار ٹھونگیں مار لیتا ہے۔ جن میں اللہ کو بہت کم یاد کرتا ہے۔“(صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب التبکیر بالعصر، حدیث: 622)
(5) آزاد آدمی کو اغوا کرکے غلام بنا لینا بھی بہت بڑا جرم ہے۔ جس کی شناعت احادیث میں وارد ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے۔ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تین آدمیوں کے خلاف قیامت کے دن میں خود مدعی ہوں گا۔ ۔ ۔ ایک وہ آدمی جس نے کسی آزاد کو (غلام بنا کر) بیچ دیا اور اس کی قیمت کھالی“(صحیح البخاري، البیوع، باب إثم من باع حرا، حدیث: 2227)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 970