الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
44. باب فِي الْمُؤَذِّنِ يَنْتَظِرُ الإِمَامَ
44. باب: مؤذن اذان کے بعد امام کا انتظار کرے۔
حدیث نمبر: 537
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:" كَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ ثُمَّ يُمْهِلُ، فَإِذَا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَرَجَ، أَقَامَ الصَّلَاةَ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے تھے پھر رکے رہتے تھے، پھر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتے کہ آپ تشریف لا رہے ہیں تو نماز کی اقامت کہتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 537]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 34 (202)، (تحفة الأشراف: 2137)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 29 (606)، مسند احمد (5/76، 78، 95، 104، 105) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ثابت ہوا کہ اقامت کہنے کے لیے ضروری نہیں کہ پہلے امام اپنے مصلے پر کھڑا ہو تب ہی اقامت کہی جائے بلکہ امام کو آتا دیکھ کر بھی تکبیر کہنا جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (606)

   صحيح مسلميؤذن إذا دحضت فلا يقيم حتى يخرج النبي فإذا خرج أقام الصلاة حين يراه
   جامع الترمذيقد خرج أقام الصلاة حين يراه
   سنن أبي داوديؤذن ثم يمهل فإذا رأى النبي قد خرج أقام الصلاة

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 537 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 537  
537۔ اردو حاشیہ:
اقامت کہنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ پہلے امام اپنے مصلے پر کھڑا ہو تب ہی اقامت کہی جائے بلکہ اسے آتا دیکھ کر بھی تکبیر کہنا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 537   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 202  
´امام کا اقامت (تکبیر) کا حق زیادہ ہے۔`
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا مؤذن دیر کرتا اور اقامت نہیں کہتا تھا یہاں تک کہ جب وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ لیتا کہ آپ نکل چکے ہیں تب وہ اقامت کہتا۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 202]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ مؤذن کو اذان کے وقت کا محافظ بنایا گیا ہے اس لیے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اذان کو مؤخر کرنے یا اسے مقدم کرنے پر اسے مجبور کرے۔

2؎:
اس لیے اس کے اشارہ یا اجازت کے بغیر تکبیر نہیں کہنی چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 202   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1370  
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب سورج ڈھل جاتا تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظہر کی اذان کہتے اور نبی اکرم ﷺ کی تشریف آوری تک تکبیر نہ کہتے، جب آپﷺ حجرہ سے نکلتے تو آپﷺ کو دیکھ کر وہ تکبیر شروع کر دیتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1370]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
دَحَضَتْ:
سورج ڈھل گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1370