ابوجری ہجیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا: «عليك السلام يا رسول الله»”آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول!“ تو آپ نے فرمایا: «عليك السلام» مت کہو کیونکہ «عليك السلام» مردوں کا سلام ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5209]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الاستئذان 28 (2721)،سنن النسائی/الیوم اللیلة (318)، (تحفة الأشراف: 2123)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/63) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (4084)
عليك السلام فإن عليك السلام تحية الميت قل السلام عليك أنا رسول الله الذي إذا أصابك ضر فدعوته كشفه عنك وإن أصابك عام سنة فدعوته أنبتها لك وإذا كنت بأرض قفراء أو فلاة فضلت راحلتك فدعوته ردها عليك لا تسبن أحدا
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5209
فوائد ومسائل: سلام کی ابتدا کرنے والا (السلام علیکم یا السلام علیک) کہے اور جواب دینے والا (وعلیکم السلام یا وعلیک السلام) کہے، یعنی اس میں حرف واو کا اضافہ ہو۔ صرف علیک السلام ابتدا کرنے میں یا جواب دینے میں کسی طرح صحیح نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5209
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4084
´تہ بند (لنگی) کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا منع ہے۔` ابوجری جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کی رائے کو قبول کرتے ہیں جب بھی وہ کوئی بات کہتا ہے لوگ اسی کو تسلیم کرتے ہیں، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میں نے دو مرتبہ کہا: «عليك السلام يا رسول الله»”آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «عليك السلام» نہ کہو، یہ مردوں کا سلام ہے اس کے بجائے ” «السلام عليك» کہو۔“ میں نے کہا: (کیا) آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس اللہ کا بھیجا رسول ہوں، ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4084]
فوائد ومسائل: 1: اللہ کے رسول ؐ کا مقام ومنصب صحابہ کرام رضی اللہ خوب جانتے اور پہچانتے تھے کہ آپ جو فرمائیں اسے سنا اور مانا جائے اور اب یہی ہے کہ پر صاحب ایمان کو رسول اللہ کا جو بھی فرمان معلوم ہو جائے، اس کو اپنے عمل میں لانے کی کوشش کرے۔
2: سنت یہ ہے کہ قبرستان میں جاتے ہوئے اموات کو (السلام علیکم یا أھل القبور) کہا جائے۔ حدیث میں جو مذکورہوا ہے، وہ شائد عہد جاہلیت کا انداز تھا کہ وہ (علیک السلام) کہتے تھے۔ 3: مسلمان کو ہرچھوٹی بڑی اور ظاہری باطنی حاجات کے لئے صرف اور صرف اللہ کے حضور دعا کرنی چاہیے کہ وہی سننے اورقبول کرنے والا ہے۔
4: کسی صاحب ایمان کو زیب نہیں دیتا کہ کسی چیز کو گالی دے۔
5: کسی بھی نیکی کو کبھی حقیر اور معمولی نہیں جاننا چاہیے۔
6: اپنے مسلمان بھائیوں سے ہمیشہ ہنسی، خوشی، کشادہ دلی اور خدنہ پیشانی سے ملنا چاہیے۔
7: مرد کو چاہیے کہ لباس میں مردانہ صفات کا اظہار کرے جن میں سے ایک یہ ہے کہ تہ بند شلوار وغیرہ ٹخنوں سے اونچی ہو۔
8: چادر شلوار کا ٹخنوں سے نیچے ہونا تکبر کی نشانی ہے یا نسوانیت کی۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں تکبر سے ایسے نہیں کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا ہی تکبر ہے کہ رسول ؐ کے صریح فرمان کواپنے عمل میں لانے ک بجائے لا یعنی عذرکرتا ہے۔
9: اس قسم کے بظاہر عام اور چھوٹے اعمال پر اخلاص سے عمل کرنا دلیل ہے کہ یہ شخص صاحب ایمان ہے اگر چہ یہ اعمال چھوٹے نہیں ہیں، کیونکہ ان کی برکت سے دیگر بڑے فضائل حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے اور جو ان پر عمل نہیں کرتا اس سے کیا توقع رکھی جائے کہ وہ بڑی بھاری نیکیاں کمالے گا۔
10: اپنے مسلمان بھائی کو اس کے عیب پر عار نہ دلانا، بہت عزیمت کا کام ہے، البتہ کسی مناسب بھلے اندازسے نصحیت کرو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4084