زاذان کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، آپ نے اپنا ایک غلام آزاد کیا تھا، آپ نے زمین سے ایک لکڑی یا کوئی (معمولی) چیز لی اور کہا: اس میں مجھے اس لکڑی بھر بھی ثواب نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے غلام کو تھپڑ لگائے یا اسے مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5168]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الأیمان 8 (1657)، (تحفة الأشراف: 6717)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/25، 45، 61) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1657) َدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَأَبُو كَامِلٍ،قَالَ:
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5168
فوائد ومسائل: اسلام نے انسانی معاشرے میں صدیوں میں رائج غلامی کےنظام کو بڑی دقیق حکمت سے ختم کیا ہے کہ موقع بموقع ہوجانے والی غلطیوں میں غلاموں کے آذاد کرنے کو ان کا کفارہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ اہل ایمان نے اس انداز سے غلاموں کو آزاد کرنا اپنا معمول بنا لیا۔ اور انہیں آزاد کیا کہ اب یہ صنف تقریباً ناپید ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5168
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4298
ابو عمر زاذان بیان کرتے ہیں، میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا، اور وہ ایک غلام آزاد کر چکے تھے، تو انہوں نے زمین سے ایک تنکا یا کوئی چیز لی اور کہا، اس غلام کی آزادی میں اس کے برابر بھی اجر و ثواب نہیں ہے، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے غلام کو تھپڑ مارا یا پیٹا، تو اس کا کفارہ اس کو آزاد کرنا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4298]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک اور ملائمت سے پیش آنا چاہیے، اور معمولی فروگزاشت پر انہیں مارنا پیٹنا اور دکھ اور اذیت سے دوچار کرنا درست نہیں ہے، اور اگر کوئی آقا اپنے مملوک پر ظلم و زیادتی کرتا ہے، تو اس کے لیے پسندیدہ طرز عمل یہی ہے کہ وہ اس کو آزاد کر دے، تاکہ اس کے ظلم و زیادتی کا ازالہ ہو جائے، لیکن بالاتفاق آزاد کرنا فرض نہیں ہے، ایک بہترین طریقہ ہے، ہاں، اگر اس نے غلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اس کا کوئی عضو کاٹ دیا ہے، یا جلا دیا ہے، یا بے کار کر دیا ہے، تو پھر امام مالک اور امام لیث کے نزدیک آزاد کرنا فرض ہو گا۔