ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی یہ نہ کہے: میرے دل نے جوش مارا“ بلکہ یوں کہے: میرا جی پریشان ہو گیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4979]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16880)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب 100 (6180)، صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب 4 (2250)، مسند احمد (6/51، 209، 281) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح رواه البخاري (6179) ومسلم (2250)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4979
فوائد ومسائل: اسلام نےاپنے ماننے والوں کے عقائدو اعمال میں پاکیزگی پیدا کرنے کے ساتھ ان کی زبان وبیان کے اسلوب و محاورات کو بھی پاکیزہ بنایاہے۔ ارشاد الہی ہے: (بئس الاسم الفسوق بعد الايمان)(الحجرات: ١١) ايمان لے آنے کے بعدفسق کا نام بہت برا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4979
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:264
فائدہ: معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے لیے ایسے الفاظ کا چناؤ کرنا چاہیے جو اس کی عزت کے منافی نہ ہوں۔ لفظ خبیث اور لفظ نفس کا ظاہری مفہوم ایک ہی ہے لیکن لفظ خبیث اور اس کا ظاہری معنی انسانی وقار کے خلاف تھے اس لیے اپنے لیے یہ لفظ استعمال کرنے سے روکا گیا ہے۔ (فتح الباری: 692/10)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 264
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5878
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایک نہ کہے، میرا نفس خبیث ہو گیا ہے، لیکن یوں کہے میرا نفس خراب ہو گیا ہے۔“ ابوبکر کی حدیث میں لكن کا لفظ نہیں ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5878]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: خبث اور لقس: دونوں ایک معنی میں آ جاتے ہیں، یعنی جی کا بھرجانا، نفس کا متلانا، کسی چیز کی طرف مائل ہونا، لیکن خبث کے لفظ میں عموم زیادہ ہے، اس لیے اس کا معنی پلید اور ناپاک ہونا، ردی اور نکما ہونا بھی ہے، اس لیے آپ نے اس لفظ کے استعمال کو متعین اور تشخص کے ساتھ پسند نہیں کیا، کیونکہ آپ الفاظ کی شائستگی کو بھی ملحوظ رکھتے تھے، لیکن اگر یہ غیر معین شخص کے لیے، اجمالی انداز میں بلاتعیین استعمال کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، اس لیے آپ نے اس انسان کے بارے میں جو صبح کی نماز کے وقت سویا رہتا ہے، فرمایا، أصبح خبيث النفس: وہ صبح اس حالت میں کرتا ہے کہ اس کا نفس پریشان اور پراگندہ ہوتا ہے۔ اس طرح اس حدیث کا تعلق الفاظ میں شائستگی کو ملحوظ رکھنے سے ہے۔