ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کر دے، تو اللہ اس کی قیامت کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور فرمائے گا، اور جس نے کسی نادار و تنگ دست کے ساتھ آسانی و نرمی کا رویہ اپنایا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا و آخرت میں آسانی کا رویہ اپنائے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے، جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4946]
من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة من يسر على معسر يسر الله عليه في الدنيا والآخرة من ستر مسلما ستره الله في الدنيا والآخرة الله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له به طريقا إلى
من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب الآخرة من ستر على مسلم ستره الله في الدنيا والآخرة الله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه
من نفس عن أخيه كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة من ستر مسلما ستره الله في الدنيا والآخرة من يسر على معسر يسر الله عليه في الدنيا والآخرة الله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا إلى ال
من نفس عن مسلم كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة من يسر على معسر في الدنيا يسر الله عليه في الدنيا والآخرة من ستر على مسلم في الدنيا ستر الله عليه في الدنيا والآخرة الله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه
من نفس عن مسلم كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة من يسر على معسر يسر الله عليه في الدنيا والآخرة من ستر على مسلم ستر الله عليه في الدنيا والآخرة الله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه
من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة من ستر مسلما ستره الله في الدنيا والآخرة من يسر على معسر يسر الله عليه في الدنيا والآخرة الله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له به طريقا إلى
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 204
´مسلمان کے لیے خوشخبری` «. . . وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمِنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نسبه» . رَوَاهُ مُسلم . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں اور سختیوں کو دور کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی بے چینیوں کو اور تنگدستیوں اور پریشانیوں کو دور کر دے گا۔ اور جو شخص کسی تنگدست کی مشکلوں کو آسان کر دے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کے عیب کو چھپایا اور پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت میں پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس بندے کی اعانت میں رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے مسلمان بھائی کی امداد میں لگا رہتا ہے اور جو شخص علم حاصل کرنے کے راستہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان کر دیتا ہے اور جو لوگ اللہ کے گھروں (مسجدوں اور دینی مدرسوں میں) جمع ہو کر قرآن مجید پڑھتے اور پڑھاتے ہیں تو ان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے تسکین اترتی ہے اور اللہ کی رحمت ان پر چھا جاتی ہے اور رحمت کے فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس والے فرشتوں سے ان کا تذکرہ فرماتا ہے۔ اور جس کا عمل سست رہا، تو اس کا نسب جلدی نہیں کرے گا۔“ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 204]
تخریج الحديث: [صحيح مسلم 6853]
فقه الحديث: ➊ یہ حدیث اس قدر جامع ہے کہ اگر صرف اسی پر صحیح طریقے سے عمل پیرا ہوا جائے تو دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ ➋ اسلام ہمدردی و ایثار کا درس دیتا ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا اہل ایمان کا شیوہ ہے۔ ➌ کسی کے عیوب کی پردہ پوشی درحقیقت اپنے ہی گناہوں کو چھپانا ہے۔ ➍ طلب علم حصول جنت کا بہترین ذریعہ ہے، نیز اہل علم دوسروں سے افضل ہیں۔ ➎ روز قیامت حسب و نسب نہیں بلکہ ایمان اور اعمال صالحہ سے ہی کامیابی ملے گی۔
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 6853
´مومن پر سے کوئی سختی دنیا کی دور کرنا` «. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مومن پر سے کوئی سختی دنیا کی دور کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دور کرے گا . . .“[صحيح مسلم/كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ: 6853]
فقہ الحدیث ➊ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” یہ ایک عظیم حدیث ہے، جس نے کئی علوم، قواعد اور آداب کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔ حدیث میں پریشانی کو ہٹانے سے مراد ہے کہ اس کو زائل کیا جائے، نیز حدیث میں فضیلت کے کئی کام بتائے گئے ہیں، مثلاً: جیسے بھی ممکن ہو، مسلمانوں کو نفع پہنچایا جائے، ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ علم، مال یا باہمی تعاون کے ذریعے سے کسی مصلحت یا نصیحت کی طرف اشارہ کر کے یا کسی اور انداز سے دوسروں کے فائدے کا باعث بننا چاہیے۔ اسی طرح مسلمانوں کی پردہ پوشی، تنگ دست کو مہلت دینا، حصول علم کے لیے سفر کرنا یہ سب فضیلت کے کام ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم میں مشغول رہنا کتنا سود مند ہے ہے۔ یاد رہے کہ یہاں علم سے مراد علم شرعی ہے، بشرطیکہ مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو، اگرچہ یہ شرط تو ہر عمل کے لیے درکار ہوتی ہے لیکن علماء عام طور پر علم کو اس شرط کے ساتھ ضرور مقید کرتے ہیں، کیوں کہ بعض لوگوں کے ہاں اس میں کبھی تساہل بھی پایا جاتا ہے، خاص طور پر اس راستے کے ابتدائی مسافر اخلاص نیت میں غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
➋ یہ حدیث بتاتی ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی تعلیم و تدریس کے لئے مساجد، مدارس یا دیگر مقامات پر اکٹھا ہونا بھی نہایت فضیلت والا کام ہے، اس حدیث سے اور دیگر کئی دلائل سے قرآن و حدیث کی تدریس کا جواز بھی معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ»[5-المائدة:67]” اے رسول! آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کیجئے۔“ اسی طرح رسول اللہ نے فرمایا: «بلغو عني ولو آية»” یعنی میری طرف سے آگے پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہی ہو۔“ اس حدیث کو امیر المؤمنین فی الحدیث، شیخ الاسلام، فقیہ امت محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح [صحيح البخاري: 3461] میں روایت کیا ہے۔
➌ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ غیبت کرنا اور کسی مسلمان بھائی کا ایسا تذکرہ کرنا جس سے اس بھائی کو تکلیف پہنچے حرام ہے، یہ حکم ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کی غلطیاں اور مفسدات معروف نہیں ہیں، جبکہ ایسا آدمی جو علی الاعلان بدعت و فساد کا داعی ہے، ایسے آدمی کے نقصانات سے والئی مملکت یا کسی معتبر شخصیت کو آگاہ کرنا جائز ہے، اسی طرح اگر آدمی خود کسی کو غلطی و فساد سے روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کسی ایسے آدمی کو اس کے بارے میں بتا دینا درست ہو گا جو اسے غلطی سے روک سکتا ہو، اور اگر کسی آدمی کو گناہ میں ملوث پایا جائے تو اسے خود بھی حتی المقدور منع کرنا ضروری ہے۔
➍ اس حدیث سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ جہنم کی آگ سے نجات صرف اور صرف ایمان اور اعمال صالحہ سے ہی ممکن ہے، اس معاملے میں حسب و نسب کا کوئی دخل نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی فرمایا تھا: ” اے فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیوں کہ میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے لیے کسی شئے کا اختیار نہیں رکھتا، ہاں! اتنا ہے ضرور کہ تمہارا میرے ساتھ رحم کا رشتہ ہے، میں اس رشتے کے حقوق و واجبات ادا کرتا رہوں گا۔“[صحیح مسلم: 204] اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ” اے میری بیٹی فاطمہ! میرے مال میں سے تم جو مانگنا چاہو، مجھ سے مانگ لو، میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکوں گا۔“[صحیح البخاری: 2753] ذرا غور کیجئیے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مومنہ بیٹی سے کیا فرما رہے ہیں؟ جبکہ آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا ٹکڑا ہیں، اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہیں، اور ان کے بالمقابل وہ آدمی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا فقط دعویٰ کرتا ہے، جبکہ عقیدہ و عمل میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا مخالف ہے، کیسے یہ گمان کر سکتا ہے کہ روز محشر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی سفارش کے ذریعے سے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔۔۔۔؟
➎ فواد عبدالباقی رحمہ اللہ اور دیگر عربی نسخوں میں سند یوں ہے: «حدثنا الاعمش حدثنا ابن نمير عن ابي صالح» جبکہ یہ خطا ہے، درست سند اس طرح ہے: «حدثنا الاعمش قال ابن نمير عن ابي صالح» لہٰذا اس کی تصحیح کر لیجئیے، یاد رہے کہ صحیح مسلم کا عمدہ ترین نسخہ وہ ہے جو ہند و پاک میں متداول ہے، جیسا کہ میں نے ریاض (شہر) میں بعض عربی بھائیوں کی مجلس میں ثابت کیا تھا۔ «والحمدلله»
➏ سلیمان بن مہران الاعمش حدیث کے ایک راوی ہیں، آپ کی تدلیس مشہور ہے، جیسا کہ کتب رجال میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تنبیہ: صحیح بخاری و مسلم میں مدلس راوی کی روایت (خواہ وہ معنعن ہو) سماع پر محمول ہوتی ہے، یا اس کے متابعات کی بنا پر وہ صحیح سمجھی جاتی ہے، یہ قاعدہ اصول حدیث کی کتب میں بالتفصیل موجود ہے، برخلاف ان لوگوں کے جو اسے تسلیم نہیں کرتے۔
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1263
مسلمان کی مدد اور پردہ پوشی کی فضیلت «وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: من نفس عن مسلم كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة ومن يسر على معسر يسر الله عليه فى الدنيا والآخرة ومن ستر مسلما ستره الله فى الدنيا والآخرة والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون اخيه . اخرجه مسلم.» ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلم سے دنیا کی تنگیوں میں سے کوئی تنگی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی تنگیوں میں سے کوئی تنگی دور فرمائے گا اور جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلم پر پردہ ڈالے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں پردہ ڈالے گا اور اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں (رہتا) ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔ مسلم۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1263]
مفردات: «نفس» یہ «تنفيس الخناق» سے مشتق ہے یعنی گلا گھونٹنے والی چیز کو ڈھیلا کرنا تاکہ وہ سانس لے سکے۔ «نَفَسٌ» کا معنی سانس ہوتا ہے۔ مراد تنگی دور کرنا ہے۔ «كُرْبَةً» ایسا غم جو نفس کو فکر مند کر دے اور دل کو ڈھانپ لے اس طرح کہ گویا سانس لینے کی گنجائش نہ رہے۔
فوائد: ➊ مسلمان کی دنیا کی تنگیاں کئی قسم کی ہو سکتی ہیں جنہیں دور کرنے کی فضیلت بیان ہوئی، مثلاً اگر اسے مالی تنگی درپیش ہے تو اگر ہو سکے تو اپنے پاس سے مال دے کر اسے دور کرے یا اسے قرض دے دے یا اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے کسی دوسرے سے مال دلوا دے یا قرض دلوا دے۔ اگر کسی ظالم کے ظلم سے تنگ ہے تو وہ ظلم دور کرنے یا کم کرنے کی کوشش کرے اگر بیمار ہے تو علاج میں اس کی مدد کرے وغیرہ۔ آخرت میں پیش آنے والی سختیاں بھی بے شمار ہیں۔ نووی رحمہ الله نے فرمایا کہ مسلم بھائی کی تنگی دور کرنے والے کے لئے آخرت کی تنگیوں میں سے کوئی تنگی دور کرنے کی بشارت تب ہی پوری ہو سکتی ہے جب اس کا خاتمہ ایمان پر ہو تو اس حدیث میں ایمان پر خاتمہ کی بشارت بھی بھی ضمناً مذکور ہے۔“[توضيح] ➋ تنگ دست پر آسانی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ»[2-البقرة:280] ”اور اگر وہ (مقروض) تنگدست ہے تو اسے مہلت دینا ہے آسانی تک اور تم صدقہ کر دو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ اگر تمہیں علم ہو۔“ اس آیت سے معلوم ہوا کہ تنگدست کے لئے آسانی کی ایک صورت یہ ہے کہ اسے مہلت دے دے یہ تو واجب ہے دوسری صورت یہ ہے کہ اس کا قرض معاف کر دے بلکہ ہو سکے تو اس کے ساتھ اس کا مالی تعاون بھی کر دے تاکہ اس کی تنگدستی دور ہو جائے یہ فضیلت کی بات ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کسی تنگدست کو دیکھتا تو اپنے نوکر سے کہتا اس سے درگزر کرو شاید اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے تو اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر فرمایا۔ [متفق عليه مشكوة باب االافلاس] ➌ جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس پر آسانی فرمائے گا معلوم ہوا کہ اگر تنگدست پر سختی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر سختی کرے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص خوشحال ہو تو اس سے اپنا حق لینے کے لئے تنگی کر سکتا ہے کیونکہ غنی آدمی کا حق ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ [متفق عليه] اور اگر پیسے ہوتے ہوئے نہ دے تو اس کی بےعزتی کرنا اور سزا دینا جائز ہو جاتا ہے۔ حدیث صحیح [ابوداود، نسائي عن الشريد] ➍ «من ستر مسلما» جو شخص کسی مسلمان کی کسی لغزش یا غلطی پر مطلع ہو پھر اس پر پردہ ڈال دے تو اسے یہ اجر ملے گا کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس پر پردہ ڈال دے گا۔ دنیا میں اس طرح کہ اسے ایسی غلطی سے ہی محفوظ رکھے گا یا اگر ایسی غلطی کر بیٹھے تو کسی کو معلوم نہیں ہو گی اور آخرت میں اس کے گناہ معاف کر دے گا اور اس کے برے اعمال ظاہر نہیں کرے گا۔ ➎ جو شخص چھپ کر گناہ کرے اس پر پردہ ڈالا جائے گا لیکن جو شخص کھلم کھلا اعلانیۃ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور روکنے سے نہیں رکتا اس کا معاملہ ان لوگوں کے پاس پہنچایا جائے گا جو اسے روک سکیں کیونکہ اگر خاموشی اختیار کی جائے تو یہ برائی میں اس کی مدد ہوگی فرمان الٰہی ہے: «وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ» ”اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد مت کرو۔“[المائدة: 2] ➏ حدیث کے راویوں کی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا جائز نہیں کیونکہ اس سے دین کی تحریف کا خطرہ ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے بیت المال میں خیانت کرنے والوں کو ظاہر کرنا بھی جائز ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی خیر خواہی ہے جو کہ فرض ہے۔ ➐ مسلمان پر پردہ ڈالنے میں دوسروں مسلمانوں کے علاوہ آدمی خود بھی شامل ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو کسی کو نہ بتائے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے۔ ➑ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں ہوتا ہے۔ یعنی اپنے بھائی کا تعاون جس کام میں کر رہا ہوتا ہے اس میں اللہ کی امداد شامل ہوتی ہے اس کے علاوہ اس کے اپنے کاموں میں بھی اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اگرچہ اللہ کی مدد کے بغیر آدمی کوئی کام بھی نہیں کر سکتا مگر اس صورت میں اسے اللہ کی خاص مدد حاصل ہوتی ہے اس لئے جو شخص چاہے کہ اس کے سب کام درست رہیں وہ دوسرے مسلم بھائیوں کی مدد کرتا رہے۔ ➒ مسلم بھائیوں کو خوش کرنے کو افضل عمل قرار دیا گیا ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «افضل الاعمال ان تدخل على اخيك المومن سرورا او تقضي عنه دينا او تطعمه خبزا»[قضاء الحوائج لابن ابي الدنيا بحوالة سلسلة الاحاديث الصحيحة، حديث حسن 1494] ”سب سے بہتر کام یہ ہے کہ تو اپنے مومن بھائی پر خوشی داخل کرے یا اس کی طرف سے قرض ادا کر دے یا اسے روٹی کھلا دے۔“ ➓ اللہ تعالیٰ بندے کو عمل کی جزاء اس کے عمل کی طرح ہی دیتے ہیں کوئی پردہ ڈالے تو پردہ ڈالتے ہیں۔ تنگی دور کرے تو تنگی دور کرتے ہیں۔ مومن کی مدد کرے تو اس کی مدد کرتے ہیں۔ کوئی مومن کو رسوا کرے تو اسے رسوا کر دیتے ہیں۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 94
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1334
´ذکر اور دعا کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کوئی قوم کسی مجلس میں نہیں بیٹھتی کہ وہ اس میں اللہ کا ذکر کرتی ہو مگر فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور ان کو اللہ کی رحمت ڈھانک لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے ہاں فرشتوں میں فرماتا ہے۔“(مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1334»
تخریج: «أخرجه مسلم، الذكر والدعاء، باب فضل الاجتماع علي تلاوة القرآن وعلي الذكر، حديث:2699.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل ذکر کی مجالس اور اجتماعات بڑی شان رکھتے ہیں۔ 2.حدیث میں مذکور ہے کہ ذکر الٰہی تمام اعمال سے بہتر ہے۔ بعض مشایخ نے کہا ہے کہ زبان کا ذکر تسبیح و تحمید اور تلاوت قرآن مجید وغیرہ ہے، آنکھوں کا ذکر اللہ کے خوف سے اشکبار ہونا‘ کانوں کا ذکر کلام الٰہی اور خیر خواہی کا کلمہ پوری توجہ سے سننا‘ ہاتھوں کا ذکر راہ الٰہی میں ہاتھوں سے خیرات کرنا‘ جسم و بدن کا ذکر اس کی حرکات و سکنات کا ہمیشہ اللہ کے لیے ہونا‘ دل کا ذکر صرف اللہ کا خوف اور امید و رجا رکھنا اور روح کا ذکر اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کرنا اور قضائے الٰہی پر رضامند رہنا ہے۔ اس طرح گویا انسان مجسم ذکر الٰہی بن کر رہ جاتا ہے اور یہی دراصل مطلوب و مقصود ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1334
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث225
´علماء کے فضائل و مناقب اور طلب علم کی ترغیب و تشویق۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی پریشانیوں میں سے کسی پریشانی کو دور کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے بعض پریشانیاں دور فرما دے گا، اور جس شخص نے کسی مسلمان کے عیب کو چھپایا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے عیب کو چھپائے گا، اور جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اور جو شخص علم دین حاصل کرنے کے لیے کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 225]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح کا عمل ہوتا ہے اسی طرح کا بدلہ ملتا ہے۔
(2) اعمال کی جزا و سزا صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ کچھ جزا و سزا دنیا میں بھی مل جاتی ہے۔
(3) اس میں مختلف نیک اعمال کی ترغیب ہے، مثلا: پریشانی کے موقع پر مسلمان کی مدد کرنا، اس کے عیوب کی پردہ پوشی اور اس کے لیے آسانیاں مہیا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات کی بنیاد محبت اور خیر خواہی پر ہونی چاہیے۔
(4) بھائی کی مدد صرف نیک کام میں کرنا چاہیے، غلط کام میں مدد کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے اس غلط کام اور گناہ سے روکا جائے۔
(5) مسلمان کی پردہ پوشی کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کوئی خامی، کوتاہی، عیب یا غلطی جو عام لوگوں کو معلوم نہیں، اس کی تشہیر نہ کی جائے بلکہ اسے تنہائی میں سمجھایا جائے تاکہ اس کی اصلاح ہو جائے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کے جرائم پر پردہ ڈال کر اس کے حق میں جھوٹی گواہی دی جائے۔
(6) حصول علم کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات درجات کی بلندی کا باعث اور دخول جنت کا ذریعہ ہیں، لہذا ان مشکلات سے گھبرا کر طلب علم سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان پر صبر کرنا چاہیے۔
(7) علمی حلقہ جات اللہ کی خصوصی رحمت کے مورد ہیں، لہذا درس قرآن و حدیث کی مجلس ہو یا مدارس دینیہ میں کسی علم کی کلاس، اس میں حاضری کا اہتمام کرنا چاہیے اور غیر حاضری سے زیادہ سے زیادہ اجتناب کرنا چاہیے۔
(8) طالب علم کا یہ شرف بہت عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ مقرب فرشتوں کے سامنے ان کا ذکر کرتا اور خوشنودی کا اظہار فرماتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حصول علم، تقرب الہی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
(9) اللہ کے ہاں مقام و مرتبے کا دارومدار ایمان و عمل پر ہے، حسب و نسب اور قوم و قبیلہ پر نہیں، یہی وجہ ہے کہ حضرت بلال حبشی، صہیب رومی اور سلمان فارسی رضی اللہ عنھم جیسے صحابہ بلند مراتب پر فائز ہو گئے، حالانکہ ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نسبی یا خاندانی تعلق نہیں تھا۔ لیکن ابوجہل اور ابولہب جیسے افراد محروم رہ گئے، حالانکہ وہ نسبی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت قریب تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 225
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1927
´ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر شفقت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، اس سے جھوٹ نہ بولے، اور اس کو بےیار و مددگار نہ چھوڑے، ہر مسلمان کی عزت، دولت اور خون دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے، تقویٰ یہاں (دل میں) ہے، ایک شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1927]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں مسلمانوں کی عزت آبرو اورجان ومال کی حفاظت کرنے کی تاکید کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ بتائی گئی ہے کہ تقویٰ کا معاملہ انسان کا اندرونی معاملہ ہے، اس کا تعلق دل سے ہے، اس کا حال اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا، اس لیے دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھتے ہوئے اپنے بارے میں قطعاً یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ میں زہد و تقویٰ کے اونچے مقام پر فائز ہوں، کیوں کہ اس کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1927
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1930
´مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور فرما دے گا، جس نے دنیا میں کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں آسانی کرے گا، اور جس نے دنیا میں کسی مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے عیب کی پردہ پوشی کرے گا، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں ہوتا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1930]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ اللہ کی رضا کی خاطر دنیاوی مفاد کے بغیر جوکوئی مسلمانوں کی حاجات و ضروریات کا خاص خیال رکھے اور انہیں پوری کرے تو اس کا یہ عمل نہایت فضیلت والا ہے، ایسے شخص کی حاجات خود رب العالمین پوری کرتاہے، مزید اسے آخرت میں اجر عظیم سے بھی نوازے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1930
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2945
´باب:۔۔۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے بھائی کی کوئی دنیاوی مصیبت دور کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کوئی نہ کوئی مصیبت دور فرمائے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی۔ تو اللہ اس کی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی کرے گا، اور جس نے کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی، تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا۔ اللہ اپنے بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اور جو ایسی راہ چلتا ہے جس میں اسے علم کی تلاش ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ ہموار کر دیتا ہے اور جب قوم (۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب القراءات/حدیث: 2945]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی یہ کہنا کہ میں فلاں خاندان کا ہوں، اس کے کہنے اورسمجھنے سے اس کا رتبہ ومرتبہ بلند نہیں ہو جائے گا، بلند ہو گا تو قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہو گا۔
2؎: یعنی اس سند میں اعمش اور ابوصالح کے درمیان ایک اور راوی کا واسطہ ہے، جبکہ پہلی سند میں اعمش کی ابوصالح سے براہِ راست روایت ہے، اور اعمش ابوصالح سے براہِ راست روایت کرتے ہیں، بلکہ اعمش تو ابوصالح کے ”راویہ“(بہت بڑے راوی) ہیں حتی کہ ابوصالح سے روایت میں اعمش کے عنعنہ کو بھی تحدیث (براہ راست سماع) پر محمول کیا گیا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2945
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6853
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس شخص نے کسی مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دور کی،اللہ اس کی روز قیامت کی مشکلات(سختیوں) میں سے کوئی سختی دورفرمائے گا اور جس نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیداکی،اللہ اس کے لیے دنیا اورآخرت میں آسانی پیدا کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی،اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور اللہ اپنے بندے کی مددفرماتا ہے،جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اور جو کسی ایسے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6853]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، ذکر کے لیے جمع ہونے سے اصل مقصود کسی دینی جگہ، مدرسہ، مسجد وغیرھا میں قرآن کی تعلیم و تعلم، پڑھنے پڑھانے کے لیے جمع ہونا ہے، اس لیے تلاوت کے بعد تدارس کا اضافہ کیا گیا ہے، محض خالی خولی تلاوت کے لیے جمع ہونا مراد نہیں ہے، اس تعلیم و تعلم کے نتیجہ میں چار برکات میسر آتی ہیں۔ 1۔ سکینت یعنی قلبی اطمینان اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے، یعنی اطمینان خاطر اور جمعیت قلبی نصیب ہوتی ہے۔ 2۔ رحمت الٰہی اپنے آغوش اور سایہ میں لے لیتی ہے۔ 3۔ انہیں ہر طرف سے اللہ کے فرشتے گھیر لیتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ مقربین میں ان کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ مَن بطاها به عمله: جس کے عمل اچھے بہتر نہیں ہیں، ان میں کمی و کوتاہی ہے، اس لیے وہ اچھے اور بلند درجات حاصل کرنے سے پیچھے رہ گیا ہے تو اس کے ازالہ کے لیے اس کا خاندانی شرف کام نہیں آ سکے گا، اس لیے انسان کو خاندانی شرف و منزلت کے غرہ میں مبتلا ہو کر نیک اعمال میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے، آخرت میں تو اعمال حسنہ نے ہی کام آنا ہے۔