ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے آئے، اور ان کے گھر کے طاق پر پردہ پڑا تھا، اچانک ہوا چلی، تو پردے کا ایک کونا ہٹ گیا، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں نظر آنے لگیں، آپ نے فرمایا: ”عائشہ! یہ کیا ہے؟“ میں نے کہا: میری گڑیاں ہیں، آپ نے ان گڑیوں میں ایک گھوڑا دیکھا جس میں کپڑے کے دو پر لگے ہوئے تھے، پوچھا: یہ کیا ہے جسے میں ان کے بیچ میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولیں: گھوڑا، آپ نے فرمایا: ”اور یہ کیا ہے جو اس پر ہے؟“ وہ بولیں: دو بازو، آپ نے فرمایا: ”گھوڑے کے بھی بازو ہوتے ہیں؟ وہ بولیں: کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کا ایک گھوڑا تھا جس کے بازو تھے، یہ سن کر آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4932]
ما هذا يا عائشة قالت بناتي ورأى بينهن فرسا له جناحان من رقاع فقال ما هذا الذي أرى وسطهن قالت فرس قال وما هذا الذي عليه قالت جناحان قال فرس له جناحان قالت أما سمعت أن لسليمان خيلا لها أجنحة قالت فضحك حتى رأيت نواجذه
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4932
فوائد ومسائل: 1) بچوں اور بچیوں کو نا صرف اجازت ہے بلکہ انکا فطری حق ہے کہ ان کو کھیلنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ مگر واجب ہے کہ انکی تفریحات شرعی مزاج سے ہم آہنگ ہوں۔
2) بچیاں اگر اپنے طور پر ہاتھ سے گڑیاں گڈے وغیرہ بنائیں تو جائز ہے۔ اور یہ ان ممنوعہ تصاویر میں شامل نہیں جن کا بنانا یا رکھنا ناجائز ہو۔ تاہم خیال رہے کہ موجودہ دور میں ان کھلونوں کی جو ترقی یافتہ جدید صورت ہے کہ پلاسٹک کپڑے اور پتھر وغیرہ سے بنے بالکل نقل مطابق اصل ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں راجح یہی ہے کہ یہ جائز نہیں۔ جبکہ کچھ گھروں میں ان کو بطور آرائش نمایاں کر کے رکھا جاتا ہے جس کی کسی طرح اجازت نہیں دی جاسکتی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4932