الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
21. باب الْهَدْىِ فِي الْكَلاَمِ
21. باب: بات چیت کے آداب کا بیان۔
حدیث نمبر: 4839
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ , وَأَبُو بَكْرٍ ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أُسَامَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَحِمَهَا اللَّهُ، قَالَتْ:" كَانَ كَلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَامًا فَصْلًا يَفْهَمُهُ كُلُّ مَنْ سَمِعَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا ہر لفظ الگ الگ اور واضح ہوتا تھا، جو بھی اسے سنتا سمجھ لیتا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4839]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/المناقب 9 (3639)، (تحفة الأشراف: 16406)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/138، 257) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
تقدم طرفه الصحيح (3654)

   صحيح البخاريلم يكن يسرد الحديث كسردكم
   صحيح مسلملم يكن يسرد الحديث كسردكم
   جامع الترمذييتكلم بكلام بينه فصل يحفظه من جلس إليه
   سنن أبي داودلم يكن يسرد الحديث مثل سردكم
   سنن أبي داودكان كلام رسول الله كلاما فصلا يفهمه كل من سمعه

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4839 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4839  
فوائد ومسائل:
جلدی اور تیزی تیزی سے گفتگو کرنا باوقار لوگوں کے ہاں ہمیشہ معیوب سمجھا گیا ہے۔
اور از حد تیز بولنے والا خطیب بھی کامیاب خطیب نہی سمجھا جاتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4839   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3655  
´جلدی جلدی حدیثیں بیان کرنے کا بیان۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا تمہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر تعجب نہیں کہ وہ آئے اور میرے حجرے کے ایک جانب بیٹھے اور مجھے سنانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے لگے، میں نفل نماز پڑھ رہی تھی، تو وہ قبل اس کے کہ میں اپنی نماز سے فارغ ہوتی اٹھے (اور چلے گئے) اور اگر میں انہیں پاتی تو ان سے کہتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرح جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب العلم /حدیث: 3655]
فوائد ومسائل:
فائدہ: تیزتیز بولناعام طور پر بھی کسی طرح ممدوح نہیں ہے۔
بالخصوص داعی خطیب اور مدرس کی گفتگو میں ٹھرائو کا ہونا بہت ہی عمدہ صفت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3655   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6399  
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: کیا تمھیں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ایسا کرتے ہوئے) اچھے نہیں لگتے کہ وہ آئے میرے حجرے کے ساتھ بیٹھ گئےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرنے لگے وہ مجھے (یہ) احادیث سنا رہے تھے۔میں نفل پڑھ رہی تھی تو وہ میرے نوافل ختم کرنے سے پہلے اٹھ گئے۔اگر میں (نوافل ختم کرنے کے بعد) انھیں مو جو د پا تی تو میں ان کو جواب میں یہ کہتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6399]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لم يكن يسرد الحديث:
آپ مسلسل،
بلا وقفہ،
گفتگو نہیں فرماتے تھے،
یعنی آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے تھے،
تاکہ سامع کو سننے اور سمجھنے میں سہولت رہے،
جلدی جلدی بات کرنے کی صورت میں سننا اور سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6399   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3568  
3568. حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ تمھیں ابوفلاں کے حال پر تعجب نہیں ہوتا، وہ آئے اور میرے حجرے کے قریب بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کی احادیث بیان کرنے لگے اور مجھے سنانا چاہتے تھے۔ جب کہ میں نماز پڑھ رہی تھی۔ وہ میری نماز پوری ہونے سے پہلے ہی اٹھ کر چلے گئے۔ اگر وہ مجھے مل جاتے تو میں ان کی ضرور خبرلیتی اور بتاتی کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح یوں جلدی جلدی باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3568]
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تیز بیانی اور عجلت لسانی پر انکار کیا تھا اور اشارہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو بہت آہستہ آہستہ ہواکرتی تھی کہ سننے والا آپ کے الفاظ کو گن سکتا تھا۔
گویا اسی طرح آہستہ آہستہ کلام کرنا اور قرآن وحدیث سنانا چاہیے۔
لیکن مجمع عام اور خطبہ میں یہ قید نہیں لگائی جاسکتی کیوں کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم توحید کا بیان کرتے یا عذاب الٰہی سے ڈراتے تو آپ کی آواز بہت بڑھ جاتی اور غصہ زیادہ ہوجاتا وغیرہ۔
یہاں یہ نتیجہ نکالنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت حدیث پر اعتراض کیا، یہ بالکل باطل ہے، اور ''توجیہ القول بما لا یرضی بہ القائل'' میں داخل ہے یعنی کسی کے قول کی ایسی تعبیر کرنا جو خود کہنے والے کے ذہن میں بھی نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3568   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3568  
3568. حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ تمھیں ابوفلاں کے حال پر تعجب نہیں ہوتا، وہ آئے اور میرے حجرے کے قریب بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کی احادیث بیان کرنے لگے اور مجھے سنانا چاہتے تھے۔ جب کہ میں نماز پڑھ رہی تھی۔ وہ میری نماز پوری ہونے سے پہلے ہی اٹھ کر چلے گئے۔ اگر وہ مجھے مل جاتے تو میں ان کی ضرور خبرلیتی اور بتاتی کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح یوں جلدی جلدی باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3568]
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس شخصیت کو ہدف تنقید بنایا وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،چنانچہ اسماعیلی کی روایت میں صراحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
تجھے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انداز گفتگو پر تعجب نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 707/6)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احادیث کے متعلق زور بیانی پر اعتراض کیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجے میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاحافظہ بہت قوی تھا،اس لیے احادیث جلدی جلدی بیان کردیتے تھے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت آہستہ آہستہ ہوا کرتی تھی کہ سننے والاآپ کے الفاظ گن لیتاتھا لیکن مجمع عام اور خطبہ دیتے وقت یہ قید نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرماتے تو آپ کی آواز بلند ہوجاتی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت حدیث پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3568