حدیث حاشیہ: 1۔
اس آیت میں
(عَفو) کے متعلق دوآراء ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
ابن عباس ؓ کا مؤقف ہے کہ اس سے مراد لوگوں کے وہ مال ہیں جو ان کی ضروریات سے زائد ہوں، انھیں لینے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے اور یہ حکم زکاۃ کے احکام اترنے سے پہلے کا ہے۔
۔
حضرت ابن زبیر ؓ کا موقف ہے کہ اس سے مراد معاف کردینا ہے کہ لوگوں کے اخلاق واعمال کی جستجو کرنے کی بجائے انھیں معاف کردیا کریں جیسا کہ درج بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے۔
علامہ ابن جریرطبری ؒ نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ اخلاق، خلق کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ ملکہ ہے جس کے باعث افعال آسانی سے صادر ہوں۔
جعفر صادق ؒ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں لوگوں کے مکارم اخلاق بیان کرنے کے بارے میں اس سے جامع کوئی آیت نہیں ہے۔
2۔
اصول اخلاق تین ہیں:
عقلی، شہوی اور غضبی۔
اور ہرخلق کا کمال امرمتوسط ہے، خلق عقلی کا متوسط حکمت ہے۔
اس سے امر بالمعروف پیدا ہوتا ہے۔
شہوی کا متوسط عفت ہے۔
اس سے اخذ عفو پیدا ہوتا ہے اور قوت غضبی کا متوسط شجاعت ہے۔
اس سے جاہلوں سے اعراض پیدا ہوتا ہے۔
(عمدة القاري: 625/12) 3۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبریل ؑ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ مجھے علم نہیں، البتہ میں اللہ تعالیٰ سے دریافت کر کے اس کا مطلب بتا سکتا ہوں، پھر انھوں نے بتایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ جو شخص آپ پر ظلم کرے، آپ اسے معاف کردیں اور جو آپ کو کچھ نہ دے آپ اس پر بخشش کریں اور جو آپ سے قطعہ تعلقی کرے آپ اس سے بھی صلح رحمی کریں۔
(فتح الباري: 388/8) الغرض یہ آیت اخلاق فاضلہ پر مشتمل ایک جامع ہدایت نامہ ہےجس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے سید الانبیاء ؑ کی تربیت کرکے آپ کو تمام اولین وآخریں میں خلق عظیم کے خطاب سے نوازا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”بے شک آپ عمدہ اخلاق پر فائز ہیں۔
“ (القلم: 4/68)