ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میرے جی میں میرا معاملہ اس سے کمتر تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی گفتگو فرمائے گا کہ وہ ہمیشہ تلاوت کی جائے گی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4735]
وضاحت: ۱؎: یعنی میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کلام کرے، اور قرآن میں اس کو نازل فرما دے جو ہمیشہ تلاوت کیا جائے، ان کا اشارہ واقعہ افک کی طرف تھا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح رواه البخاري (7500) ومسلم (2770) مطولًا
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4735
فوائد ومسائل: 1: غزوہ نبی مصطلق 5 یا 6 ہجری میں منافقین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ پر بہتان کا ایک بہت بڑا پہاڑ توڑ دیا تھا جو خود سیدہ کے لئے، رسولؐ اور دیگر تمام اہل ایمان کے لئے انتہائی کرب واذیت کا باعث بنا، مگر اس کا انجام اس اعتبار سے بہت مسرت افزا رہا کہ ان کی براءت میں سولہ آیتیں نازل ہوئیں (سورۃالنور آیت 11 سے 26) جو ان کی مدح وستائش میں قیامت تک تلاوت ہوتی رہیں گی۔
2: اس واقعہ اور روایت میں اللہ عزوجل کی صفت کلام کا ذکر کیا گیا ہے۔
3: مذکورہ واقعہ ایک حادثہ تھا، مگر کلام اللہ کا حادث نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4735