ربیع بن خالد ضبی کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو خطبہ دیتے سنا، اس نے اپنے خطبے میں کہا: تم میں سے کسی کا پیغام بر جو اس کی ضرورت سے (پیغام لے جا رہا) ہو زیادہ درجے والا ہے، یا وہ جو اس کے گھربار میں اس کا قائم مقام اور خلیفہ ہو؟ تو میں نے اپنے دل میں کہا: اللہ کا میرے اوپر حق ہے کہ میں تیرے پیچھے کبھی نماز نہ پڑھوں، اور اگر مجھے ایسے لوگ ملے جو تجھ سے جہاد کریں تو میں ضرور ان کے ساتھ تجھ سے جہاد کروں گا۔ اسحاق نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے: چنانچہ انہوں نے جماجم میں جنگ کی یہاں تک کہ مارے گئے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4642]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4642
فوائد ومسائل: حجاج کی طرف منسوب اس کلام کا مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جس طرح کسی کا نائب اور جو اس کے اہل میں رہ کر انکی خدمت کر رہا ہو اس کے قاصد کی نسبت زیادہ افضل ہوتا ہے۔ اسی طرح انبیاء جو فقط اللہ عزوجل کے احکام پہنچانے والے تھے، نعوذ باللہ ان کی نسبت امراء بنو امیہ جو اس زمین میں اللہ کے خلیفہ ہیں بہتر ہیں اور یہ کہ خلیفہ قاصد سے افضل ہوا کرتا ہے۔ یہ کلام مفہوم اگر درست ہو تو صریح کفر ہے، مگر یہ روایت ضعیف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4642