عوف الا عرابی کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو خطبہ میں یہ کہتے سنا: عثمان کی مثال اللہ کے نزدیک عیسیٰ بن مریم کی طرح ہے، پھر انہوں نے آیت کریمہ «إذ قال الله يا عيسى إني متوفيك ورافعك إلى ومطهرك من الذين كفروا»”جب اللہ نے کہا کہ: اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں، اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں، اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں“(سورۃ آل عمران: ۵۵) پڑھی اور اپنے ہاتھ سے ہماری اور اہل شام کی طرف اشارہ کر رہے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4641]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19183) (ضعیف) (عوف بن ابی جمیلة اعرابی اور حجاج کے درمیان انقطاع ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ تفسیر بالرائے کی بدترین قسم ہے حجاج نے اس آیت کریمہ کو اپنے اور اپنے مخالفوں پر منطبق کر ڈالا جب کہ حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں، آج بھی بعض اہل بدعت آیات قرآنیہ کی من مانی تفسیر کرتے رہتے ہیں، اور اہل حق کو اہل باطل اور باطل پرستوں کو اہل حق باور کراتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف مقطوع
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن عبد السلام ھو ابن مطھر وجعفر ھو ابن سليمان الضبعي
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4641
فوائد ومسائل: مفہوم کلام یہ تھا کہ جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے متبعین کو اللہ تعالی نے کافروں پر غلبہ دیا اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متبعین ہیں جو شام میں پورے ملک پر حکومت کر رہے ہیں دوسرے جو ان کے مخالف ہیں مغلوب ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4641