عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیت کی قیمت ۱؎ آٹھ سو دینار، یا آٹھ ہزار درہم تھی، اور اہل کتاب کی دیت اس وقت مسلمانوں کی دیت کی آدھی تھی، پھر اسی طرح حکم چلتا رہا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا، اور فرمایا: سنو، اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے سونے والوں پر ایک ہزار دینار، اور چاندی والوں پر بارہ ہزار (درہم) دیت ٹھہرائی، اور گائے بیل والوں پر دو سو گائیں، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑوں کی دیت مقرر کی، اور ذمیوں کی دیت چھوڑ دی، ان کی دیت میں (مسلمانوں کی دیت کی طرح) اضافہ نہیں کیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4542]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 8688) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی دیت کے اونٹوں کی قیمت۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3498)
قيمة الدية على عهد رسول الله ثمان مائة دينار أو ثمانية آلاف درهم ودية أهل الكتاب يومئذ النصف من دية المسلمين قال فكان ذلك كذلك حتى استخلف عمر رحمه الله فقام خطيبا فقال ألا إن الإبل قد غلت قال ففرضها عمر على أهل الذهب ألف دينار وعلى أهل
من قتل خطأ فديته من الإبل ثلاثون بنت مخاض وثلاثون بنت لبون وثلاثون حقة وعشرة بني لبون يقومها على أهل القرى أربعمائة دينار أو عدلها من الورق يقومها على أزمان الإبل إذا غلت رفع ثمنها وإذا هانت نقص من ثمنها على نحو الزمان
من قتل خطأ فديته مائة من الإبل ثلاثون بنت مخاض وثلاثون بنت لبون وثلاثون حقة وعشرة بني لبون ذكور يقومها على أهل القرى أربع مائة دينار أو عدلها من الورق يقومها على أهل الإبل إذا غلت رفع في قيمتها وإذا هانت نقص من قيمت
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4542
فوائد ومسائل: حکومت اسلامیہ کے اصحاب حل وعقد پر لازم ہے کہ دیت جیسے شرعی واجبات میں بازار کے بھاؤ کے مطابق عوام میں اعلان عام کرتے رہا کریں تاکہ کسی پر ظلم نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4542
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4805
´تلامذہ خالدالحذاء کے اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص خطا (غلطی) سے مارا جائے اس کی دیت سو اونٹ ہے: تیس اونٹنیاں ہیں جو ایک سال پورے کر کے دوسرے میں لگ گئی ہوں اور تیس اونٹنیاں جو دو سال پورے کر کے تیسرے میں لگ گئی ہوں اور تیس اونٹنیاں وہ جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں لگ گئی ہوں اور دو دو سال کے دس اونٹ ہیں جو تیسرے سال میں داخل ہو گئے ہوں، اور آپ نے گاؤں والوں پر دیت کی قیمت چار سو دینار لگائی یا اتنی ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4805]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث مبارکہ میں قتل خطا کی دیت کی مقدار کا بیان ہے اور وہ چار قسم کے سو اونٹ ہے، اس کی تفصیل حدیث مذکورہ میں بیان کر دی گئی ہے۔ (2) یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اصل دیت اونٹ ہی ہیں، تاہم اونٹ میسر نہ ہونے کی صورت میں سو اونٹوں کی قیمت دیت ہوگی، اگر اونٹ مہنگے ہوں گے تو دیت کی رقم یا زیادہ ہوگی اور اگر اونٹ سستے ہوں گے تو پھر دیت کی رقم بھی کم ہوگی۔ اگر کوئی شخص دیت میں گائے بیل دینا چاہے تو دیت دو سو گائے بیل ہوگی۔ اور اگر دیت بکریوں کی صورت میں ادا کرنا چاہے تو دو ہزار بکریاں دیت ہوگی۔ (3) قاتل سے قصاص لینا ورثاء کا حق ہے۔ وہ چاہیں تو قصاص لیں اور اگر چاہیں تو معاف کر دیں۔ مقتول کے ورثاء، یعنی ورثائے مال کے علاوہ دیگر عصبات (عزیز واقارب) وغیرہ کو قصاص لینے یا معافی دینے کا کوئی حق نہیں۔ ہاں، اگر مقتول کے ورثاء میں سے کوئی مرد یا عورت نہ ہو تو پھر دیگر عزیز واقارب کو یہ حق مل جائے گا۔ واللہ أعلم! (4) مقتول کی دیت، اس کے دوسرے مال کی طرح اس کے ورثاء کا حق ہے، یعنی دیت بھی، انھی میں تقسیم ہوگی۔ پہلے اصحاب الفروض (جن کا حصہ شریعت نے مقرر کر دیا ہے) لیں گے، ان سے جو بچ جائے وہ عصبہ لیں گے۔ البتہ اگر کسی شخص سے خطا (غلطی سے) قتل ہو جائے تو اس کے ذمہ عائد ہونے والی دیت اس کے عصبہ ہی ادا کریں گے، عصبہ قریب ترین مذکر کو کہتے ہیں، مثلاً: بیٹے، پوتے، باپ، دادا، بھائی، بھتیجے، چچا، تایا، ان کی اولاد۔ اور ورثاء سے مراد وہ رشتے دار ہیں جن کا حصہ وراثت میں مقرر کیا گیا ہے۔ (5) یہ حدیث متعلقہ باب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ البتہ آئندہ باب سے اس کا تعلق ہے اور سنن نسائی میں بہت جگہ ایسا ہوا ہے، خصوصاً جب کہ سابقہ باب کے تحت روایات زیادہ ہوں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4805
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2630
´قتل خطا کی دیت۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص غلطی سے مارا جائے اس کا خون بہا تیس اونٹنیاں ہیں، جو ایک سال پورے کر کے دوسرے میں لگ گئی ہوں، اور تیس اونٹنیاں جو دو سال پورے کر کے تیسرے میں لگ گئی ہوں، اور تیس اونٹنیاں وہ جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں لگ گئی ہوں، اور دو دو سال کے دس اونٹ ہیں جو تیسرے سال میں داخل ہو گئے ہوں“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گاؤں والوں پر دیت (خون بہا) کی قیمت چار سو دینار لگائی یا اتنی ہی قیمت کی چاندی، یہ قیمت وقت کے حساب سے بدلتی رہتی، اونٹ مہنگے ہوتے تو دیت بھی زیادہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2630]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) دیت کی اصل مقدار اونٹوں سے متعین ہوتی ہے۔
(2) اگر اونٹ ادا کرنا ممکن نہ ہوں تو گائے بکری کی صورت میں بھی دیت ادا ہوسکتی ہے۔
(3دیت کی ادائیگی نقد رقم کی صورت میں بھی ممکن ہے، اس صورت میں حکومت کو یا جج کو چاہیے کہ سو اونٹوں کی قیمت کا اندازہ کرکے اتنی دیت کا فیصلہ دے۔
(4) اونٹوں کی قیمت میں کمی پیشی سے نقد رقم کی مقدار میں بھی کمی بیشی ہوسکتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2630