ابن الہاد سے اسی سند سے اسی مفہوم کی روایت آئی ہے اس میں ہے کہ اسے مار چکنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”تم لوگ اسے زبانی عار دلاؤ“، تو لوگ اس کی طرف یہ کہتے ہوئے متوجہ ہوئے: ”نہ تو تو اللہ سے ڈرا، نہ اس سے خوف کھایا نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرمایا“ پھر لوگوں نے اسے چھوڑ دیا، اور اس کے آخر میں ہے: ”لیکن یوں کہو: اے اللہ اس کو بخش دے، اس پر ر حم فرما“ کچھ لوگوں نے اس سیاق میں کچھ کمی بیشی کی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4478]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4478
فوائد ومسائل: حد شرعی لگ جانے کے بعد ایسے شخص کے لئےاستغفار اور رحمت کی دعا کرنی چاہئے۔ برے انداز میں تزلیل کے الفاظ بولنا جائز نہیں، کیونکہ اس سے بعض اوقات منفی ردعمل کی نفسیات کو انگیخت ملتی ہے اور پھر کئی لوگ اپنی برائی سے باز آنے کی بجائے اس پر اور ڈھیٹ ہو جاتے ہیں۔ اسی مفہوم کو شیطان کی مدد سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4478