خالد بن لجلاج کا بیان ہے کہ ان کے والد الجلاج نے انہیں بتایا کہ وہ بیٹھے بازار میں کام کر رہے تھے اتنے میں ایک عورت ایک لڑکے کو لیے گزری تو لوگ اس کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے ان اٹھنے والوں میں میں بھی تھا، اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا آپ اس سے پوچھ رہے تھے: ”اس بچہ کا باپ کون ہے؟“ وہ عورت چپ تھی، ایک نوجوان جو اس کے برابر میں تھا بولا: اللہ کے رسول! میں اس کا باپ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے، اور پوچھا: ”اس بچے کا باپ کون ہے؟“ تو نوجوان نے پھر کہا: اللہ کے رسول! میں اس کا باپ ہوں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے کسی کی طرف دیکھا، آپ ان سے اس نوجوان کے متعلق دریافت فرما رہے تھے؟ تو لوگوں نے کہا: ہم تو اسے نیک ہی جانتے ہیں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تم شادی شدہ ہو؟“ اس نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ رجم کر دیا گیا، اس میں ہے کہ ہم اس کو لے کر نکلے اور ایک گڑھے میں اسے گاڑا پھر پتھروں سے اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، اتنے میں ایک شخص آیا، اور اس رجم کئے گئے شخص کے متعلق پوچھنے لگا، تو اسے لے کر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور ہم نے کہا: یہ اس خبیث کے متعلق پوچھ رہا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے“ پھر پتا چلا کہ وہ اس کا باپ تھا ہم نے اس کے غسل اور کفن دفن میں اس کی مدد کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے ”اور اس پر نماز پڑھنے میں بھی (مدد کی) کہا یا نہیں“ یہ عبدہ کی روایت ہے، اور زیادہ کامل ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4435]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11171)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/479) (حسن الإسناد)»
من أبو هذا معك فسكتت فقال شاب حذوها أنا أبوه يا رسول الله فأقبل عليها فقال من أبو هذا معك قال الفتى أنا أبوه يا رسول الله فنظر رسول الله إلى بعض من حوله يسألهم عنه فقالوا ما علمنا إلا خيرا فقال له النبي