ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم کا حکم دیا تو ہم انہیں لے کر بقیع کی طرف چلے، قسم اللہ کی! نہ ہم نے انہیں باندھا، نہ ہم نے ان کے لیے گڑھا کھودا، لیکن وہ خود کھڑے ہو گئے، ہم نے انہیں ہڈیوں، ڈھیلوں اور مٹی کے برتن کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں سے مار ا، تو وہ ادھر ادھر دوڑنے لگے، ہم بھی ان کے پیچھے دوڑے یہاں تک کہ وہ حرہ پتھریلی جگہ کی طرف آئے تو وہ کھڑے ہو گئے ہم نے انہیں حرہ کے بڑے بڑے پتھروں سے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈے ہو گئے، تو نہ تو آپ نے ان کی مغفرت کے لیے دعا کی، اور نہ ہی انہیں برا کہا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4431]
رجلا من أسلم يقال له ماعز بن مالك أتى رسول الله فقال إني أصبت فاحشة فأقمه علي فرده النبي مرارا قال ثم سأل قومه فقالوا ما نعلم به بأسا إلا أنه أصاب شيئا يرى أنه لا يخرجه منه إلا أن يقام فيه الحد
برجم ماعز بن مالك خرجنا به إلى البقيع فوالله ما أوثقناه ولا حفرنا له ولكنه قام لنا فرميناه بالعظام والمدر والخزف فاشتد واشتددنا خلفه حتى أتى عرض الحرة فانتصب لنا فرميناه بجلاميد الحرة حتى سكت قال فما استغفر له ولا سبه
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4431
فوائد ومسائل: حجتہ الاسلام حافظ ابن حجررحمتہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھنے والی روایت کو ترجیح دی ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس مضمون کی روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ جب ان کو رجم کیا گیا تھا اس وقت نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لئے ملاخط فرمائیں: (فتح الباري، کتاب الحدود، باب الرجم بالمصلی، 159/12، شرح حدیث:6820) امام بخاری رحمتہ اللہ سے بھی یہ سوال کیا گیا تھا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی تھی کیا یہ بات درست ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں جناب معمر نے بیان کیا ہے کہ ان کے سوا کسی اور نے اسے بیان نہیں کیا دیکھیئے: (صحیح البخاري، الحدود، حدیث:6820)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4431
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4428
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اسلم خاندان کا ایک آدمی جسے ماعز بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا، میں نے بدکاری کا ارتکاب کیا ہے، اس کی حد مجھ پر لگائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کئی دفعہ واپس کیا، پھر آپﷺ نے اس کی قوم سے پوچھا تو انہوں نے کہا، ہمیں اس کے اندر کسی بیماری (دماغی خلل) کا علم نہیں ہے، مگر یہ بات ہے، اس نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے، جس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4428]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، رجم کے لیے پتھر مارنا ضروری نہیں ہے، پتھر، ڈھیلے، ٹھیکرے، ہڈیاں اور ڈنڈے وغیرہ، جن سے انسان قتل کیا جا سکے، اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے، کیونکہ اس کو عبرتناک سزا دینی ہوتی ہے، فوری طور پر مارنا درست نہیں ہے، ہاں اگر مار مار کر اس کو ادھ موا کر دیا جائے، لیکن اس کی جان نہ نکل رہی ہو تو پھر کوئی بڑا وزنی پتھر مار کر اسے ختم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ جلود، بڑے پتھر کو کہتے ہیں۔