الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ
کتاب: فتنوں اور جنگوں کا بیان
2. باب فِي النَّهْىِ عَنِ السَّعْىِ، فِي الْفِتْنَةِ
2. باب: فتنہ و فساد پھیلانا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4259
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ، عَنْ هُزَيْلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ، فَإِنْ دُخِلَ يَعْنِي عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ".
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت سے پہلے کچھ فتنے ہیں جیسے تاریک رات کی گھڑیاں (کہ ہر گھڑی پہلی سے زیادہ تاریک ہوتی ہے) ان فتنوں میں صبح کو آدمی مومن رہے گا، اور شام کو کافر ہو جائے گا، اور شام کو مومن رہے گا، اور صبح کو کافر ہو جائے گا، اس میں بیٹھا شخص کھڑے شخص سے بہتر ہو گا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، تو تم ایسے فتنے کے وقت میں اپنی کمانیں توڑ دینا، ان کے تانت کاٹ ڈالنا، اور اپنی تلواروں کی دھار کو پتھروں سے مار کر ختم کر دینا ۱؎، پھر اگر اس پر بھی کوئی تم میں سے کسی پر چڑھ آئے، تو اسے چاہیئے کہ وہ آدم کے نیک بیٹے (ہابیل) کے مانند ہو جائے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ/حدیث: 4259]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الفتن 33 (2204)، سنن ابن ماجہ/الفتن 10 (3961)، (تحفة الأشراف: 9032)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/408، 416) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی ان فتنوں سے بالکل کنارہ کش رہنا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (5399)

   سنن أبي داودبين يدي الساعة فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسي كافرا ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا القاعد فيها خير من القائم والماشي فيها خير من الساعي فكسروا قسيكم وقطعوا أوتاركم واضربوا سيوفكم بالحجارة فإن دخل يعني على أحد منكم فليكن كخير ابني آدم
   سنن أبي داودبين أيديكم فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسي كافرا ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا القاعد فيها خير من القائم والقائم فيها خير من الماشي والماشي فيها خير من الساعي قالوا فما تأمرنا قال كونوا أحلاس بيوتكم
   سنن ابن ماجهبين يدي الساعة فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسي كافرا ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا القاعد فيها خير من القائم والقائم فيها خير من الماشي والماشي فيها خير من الساعي فكسروا قسيكم وقطعوا أوتاركم واضربوا بسيوفكم الحجارة فإن دخل على أحدمنكم فليكن ك

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4259 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4259  
فوائد ومسائل:
حضرت آدم ؑ کا بہتر بیٹا وہی تھا جس نے قتل ہونا قبول کر لیا تھا (یعنی ہابیل) اور قاتل بننے سے گریز کیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4259   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3961  
´فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے قریب ایسے فتنے ہوں گے جیسے اندھیری رات کے حصے، ان میں آدمی صبح کو مومن ہو گا، تو شام کو کافر ہو گا اور شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو گا، اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، اور ان فتنوں میں تم اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا، کمان کے تانت کاٹ ڈالنا، اپنی تلواریں پتھر پر مار کر کند کر لینا، اور اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی گھس جائے تو آدم کے دونوں بیٹوں میں سے نیک بیٹے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3961]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
فتنے کے زمانے میں اپنے ایمان کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔

(2)
فتنوں میں کم حصہ لینا بہتر ہے اور بالکل کنارہ کش رہنا سب سے بہتر۔

(3)
صرف اس لیے کسی سے دشمنی رکھنا اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا غلط ہے کہ اس کا تعلق فلاں فرقے تنظیم جماعت یا پارٹی سے ہے، یہ جاہلیت کی سی عصبیت ہے۔
اس سے زیادہ سے زیادہ اجتناب کرنا ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3961