الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5559
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا، عبیداللہ نے نافع سے دریافت کیا، قزع کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، بچے کے سر کا بعض حصہ مونڈ دیا جائے اور بعض کو چھوڑ دیا جائے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5559]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام نووی نے لکھا ہے،
قَزَعِ کی صحیح تعریف یہی ہے،
جو نافع نے کی ہے،
اگرچہ بعض نے یہ کہا ہے کہ قزع متفرق مقامات سے بال مونڈنے کا نام ہے،
لیکن عبیداللہ سے بخاری شریف میں جو تعریف منقول ہے،
وہ یہی ہے کہ إذا حلق الصبي وترك ههنا شعرة وههنا وههنا،
جس کا معنی ہے پیشانی اور سر کے دونوں جوانب سے بال مونڈنا اور درمیان میں بال چھوڑ دینا،
نیز عبیداللہ نے نافع سے نقل کیا ہے،
لڑکے کے لیے کنپٹی اور گدی کے بال منڈوانے میں کوئی حرج نہیں ہے،
امام نووی نے لکھا ہے،
علماء کا اس پر اجماع ہے،
قزع اگر مختلف مقامات سے ہو تو مکروہ تنزیہی ہے،
الا یہ کہ علاج وغیرہ کے لیے ہو،
شوافع کے نزدیک مرد اور عورت دونوں کے لیے بلا قید مکروہ ہے اور امام مالک کے نزدیک لڑکے اور لڑکی کے لیے بھی بلا قید مکروہ ہے،
جبکہ بعض مالکیوں کا خیال ہے،
کنپٹی اور گدی کے بال لڑکے کے لیے منڈوانا مکروہ نہیں ہے،
اور قزع کے مکروہ ہونے کی وجہ خلقت کو بگاڑنا اور برے لوگوں کی روش اختیار کرنا ہے اور سنن ابی داود کی ایک روایت کی رو سے یہ یہودیوں کی شکل اور ہئیت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5559