جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے توشک اور گدے بنا لیے؟“ میں نے عرض کیا: ہمیں گدے کہاں میسر ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تمہارے پاس گدے ہوں گے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4145]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3388
´غالیچوں کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: کیا تم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے گدے و غالیچے بھی بنائے ہیں؟“ میں نے کہا: ہمیں کہاں یہ گدے اور غالیچے میسر ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”عنقریب تمہارے پاس یہ ہوں گے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3388]
اردو حاشہ: نبیﷺ کی پیش گوئی بہت جلد پوری ہوگئی۔ باب کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ گھروں میں قالین رکھنا بھی جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3388
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2774
´غالیچہ (چھوٹے قالین) رکھنے کی رخصت کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس «انماط»(غالیچے) ہیں؟“ میں نے کہا: غالیچے ہمارے پاس کہاں سے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارے پاس عنقریب «انماط»(غالیچے) ہوں گے۔“(تو اب وہ زمانہ آ گیا ہے) میں اپنی بیوی سے کہتا ہوں کہ تم اپنے «انماط»(غالیچے) مجھ سے دور رکھو۔ تو وہ کہتی ہے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ کہا تھا کہ تمہارے پاس «انماط» ہوں گے، تو میں اس سے درگزر کر جاتا ہوں“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2774]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: آپﷺ نے جوپیشین گوئی کی تھی کہ مسلمان مالدار ہو جائیں گے، اورعیش وعشرت کی ساری چیزیں انہیں میسر ہوں گی بحمد اللہ آج مسلمان آپﷺ کی اس پیشین گوئی سے پوری طرح مستفید ہو رہے ہیں، اس حدیث سے غالیچے رکھنے کی اجازت کا پتا چلتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2774
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1262
1262- سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ جب میں نے شادی کرلی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے جابر! کیا تم نے قالین استعمال کیا ہے“؟ میں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! ہمارے پاس کہاں سے قالین آئیں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب آئیں گے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1262]
فائدہ: اس حدیث میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خوشخبری دی گئی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہت زیادہ فتوحات حاصل کر سکیں گے، کفار کے مال صحا بہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئیں گے، اللہ تعالیٰ صحابہ رضی اللہ عنہم کوفراوانی عطا فرمائیں گے، اور ایسے ہی ہوا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1260
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5449
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب میں نے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: ”کیا تم نے قالین رکھے ہیں؟“ میں نے عرض کیا، ہمارے ہاں قالین کہاں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ہاں، اب جلد ہی ہوں گے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5449]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: انماط: نمط کی جمع ہے، بستر کے ابرہ یعنی دہرے کپڑے کی اوپر کی تہہ کو یا بستر پوش کو کہتے ہیں، قالین اور غالیچہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث میں آپ نے فتوحات کے سبب مال و دولت کے حصول اور آسائشوں کی فراہمی کی پیشن گوئی فرمائی، جو حرف بحرف پوری ہوئی، خلفائے راشدین کے دور میں فتوحات کے نتیجہ میں مسلمانوں کو ہر قسم کی سہولتیں اور آسانیاں میسر آئیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5449
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3631
3631. حضرت جابر بن عبد اللہ سےؓ روایت ہے، انھوں نے کہا: (شادی کے موقع پر)نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا تمھارے پاس قالین ہیں؟“ میں نے عرض کیا: ہمارے پاس قالین کہاں سے آئے؟آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایک وقت تمھارے پاس عمدہ عمدہ قالین ہوں گے۔“ چنانچہ ایک وقت آیا کہ میں اپنی بیوی سے کہتا تھا کہ اپنے قالین ہمارے پاس سے ہٹا دے تو وہ کہتی ہیں: کیا نبی ﷺ نے نہیں فرمایا تھا: ”عنقریب تمھارے پاس قالین ہوں گے۔“ یہ سن کر میں انھیں وہیں رہنے دیتا ہوں۔ (اور خاموش ہو جا تا ہوں۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3631]
حدیث حاشیہ: اس روایت میں نبی کریم ﷺ کی ایک پیش گوئی کا ذکر ہے جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے خود اس صداقت کو دیکھا۔ یہ علامت نبوت میں سے ایک اہم علامت ہے، یہی حدیث اور باب میں وجہ مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3631
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5161
5161. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم نے نمدے بنا لیے ہیں؟“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے نمدے کہاں سے آئے؟ آپ نے فرمایا: ”عنقریب تمہارے لیے نمدے ہوں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5161]
حدیث حاشیہ: یعنی مستقبل میں جلد تم لوگ کشادہ حال ہو جاؤ گے صد ق رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم۔ اس سے حضرت امام بخاری نے پردے یا سوزنی کا جواز نکالا لیکن مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر سے یہ پردہ نکال کر پھینک دیا تھا اور فرمایا تھا کہ ہم کو یہ حکم نہیں ملا کہ ہم مٹی پتھر کو یہ کپڑا پہنائیں۔ اکثر شافعیہ نے اسی حدیث کی بنا پر دیواروں پر کپڑا لگانا مکروہ حرام رکھا ہے۔ ابو داؤد کی روایت میں یوں ہے کہ دیوار کو کپڑے سے مت چھپاؤ۔ اس حدیث میں صاف ممانعت ہے جب دیواروں پر کپڑا ڈالنا منع ہوا تو قبروں پرچادریں غلاف ڈالنا کیوں منع نہ ہوگا مگر جاہلوں نے قبروں پر عمدہ سے عمدہ غلاف ڈالنا جائز بنا رکھا ہے جو سراسر بت پرستی کی نقل ہے بت پرست بتوں کو قیمتی لباس پہناتے ہیں، قبر پرست قبروں پر قیمتی غلاف ڈالتے ہیں۔ پھر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5161
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3631
3631. حضرت جابر بن عبد اللہ سےؓ روایت ہے، انھوں نے کہا: (شادی کے موقع پر)نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا تمھارے پاس قالین ہیں؟“ میں نے عرض کیا: ہمارے پاس قالین کہاں سے آئے؟آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایک وقت تمھارے پاس عمدہ عمدہ قالین ہوں گے۔“ چنانچہ ایک وقت آیا کہ میں اپنی بیوی سے کہتا تھا کہ اپنے قالین ہمارے پاس سے ہٹا دے تو وہ کہتی ہیں: کیا نبی ﷺ نے نہیں فرمایا تھا: ”عنقریب تمھارے پاس قالین ہوں گے۔“ یہ سن کر میں انھیں وہیں رہنے دیتا ہوں۔ (اور خاموش ہو جا تا ہوں۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3631]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث بھی رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی دلیل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کو خبر دی تھی کہ عنقریب تمھارے ہاں بچھانے کے لیے قالین ہوں گے چنانچہ آپ کے ارشاد کے مطابق ایسا ہی ہوا۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ قالین بچھانا جائز ہے اور ایسا کرنا اسراف میں داخل نہیں بشرط یہ کہ حقیقی ضرورت کے پیش نظر اسے بچھایا جائے،البتہ دیوار پوشی یا اظہارنمائش کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔ 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی جائز کام میں رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کہ جواز کی دلیل بنایا جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت جابر ؓ کی بیوی نے اس خبر کو بطور دلیل پیش کیا اور حضرت جابر ؓ بھی سن کر خاموش ہوگئے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ پیش گوئی حضرت جابر ؓ کی شادی کے موقع پر دی تھی۔ (فتح الباري: 769/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3631
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5161
5161. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم نے نمدے بنا لیے ہیں؟“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے نمدے کہاں سے آئے؟ آپ نے فرمایا: ”عنقریب تمہارے لیے نمدے ہوں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5161]
حدیث حاشیہ: (1) ايك روايت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی کا ایک نمدا تھا۔ انھوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے ہم سے دور کر دو تو وہ جواب دیتی: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا: ”عنقریب تمہارے لیے نمدے ہوں گے۔ “ میں اس کی یہ بات سن کر اسے چھوڑ دیتا ہوں۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3631)(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمدوں کا استعمال جائز ہے۔ اگر ناجائز ہوتا تو آپ اس سے منع فرما دیتے لیکن ریشم کے نمدوں کی ممانعت دیگر احادیث سے ثابت ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ دلہن کےلیے اس قسم کے تکلفات جائز ہیں لیکن شرعی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5161