عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المؤمنین (رضی اللہ عنہن) کو ایک بالشت دامن لٹکانے کی رخصت دی، تو انہوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انہیں مزید ایک بالشت کی رخصت دے دی چنانچہ امہات المؤمنین ہمارے پاس کپڑے بھیجتیں تو ہم انہیں ایک ہاتھ ناپ دیا کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4119]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/ اللباس 13 (3581)، (تحفة الأشراف: 6661)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/اللباس 9 (1731)، مسند احمد (2/18، 90) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (3581) زيد العمي : ضعيف (تق : 2131) وقال الھيثمي : وضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 10 / 110) والحديث السابق (الأصل : 4117) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 146
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5338
´عورتوں کے دامن کی لمبائی کی حد کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تکبر (گھمنڈ) سے اپنا کپڑا لٹکایا، اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا“، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! تو پھر عورتیں اپنے دامن کیسے رکھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اسے ایک بالشت لٹکائیں“، وہ بولیں: تب تو ان کے قدم کھلے رہیں گے؟، آپ نے فرمایا: ”تو ایک ہاتھ لٹکائیں، اس سے زیادہ نہ کریں۔“[سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5338]
اردو حاشہ: (1)”ایک بالشت“ یعنی نصف پنڈلی سے ایک بالشت نیچے تبھی پاؤں ننگے ہوں گے۔ اگر ٹخنوں سے بالشت نیچے ہو تو پاؤں ڈھانکے جائیں گے۔ ”ایک ہاتھ“ سے مراد بھی نصف پنڈلی سے نیچے ایک ہاتھ ہے۔ اس صورت میں دامن زمین پرگھسیٹنے لگے گا اور پاؤں بھی ننگے نہیں ہوں گے خواہ عورت چل ہی رہی ہو۔ (2)”ننگے ہوں“ گویا عورتوں کے لیے مناسب ہے کہ ان کے قدم ننگے نہ ہوں البتہ قدم ڈھانکنا ضروری نہیں کیونکہ آپ نے ایک بالشت نیچے ہی کو ضروری قرار دیا ہے۔ (3)”ایک ہاتھ“ عربی میں لفظ ذراع استعمال کیا گیا ہے یعنی کہنی کی ہڈی کے کنارے سے درمیانی انگلی کے بالائی کنارے تک عربی میں اس فاصلے کو ذراع کہتے ہیں۔ اردو میں اسے ہاتھ کہہ لیتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5338