اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی واقعہ مروی ہے لیکن اس میں ”دھاری دار ریشمی جوڑے“ کے بجائے ”موٹے ریشم کا جوڑا ہے“ نیز اس میں ہے: پھر آپ نے انہیں دیباج ایک جوڑا بھیجا، اور فرمایا: ”اسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4041]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4041
فوائد ومسائل: ریشم موٹا ہو یا باریک سب کا حکم ایک ہے اور نبی ؐ نے اسے فروخت کرنے کا حکم اس لئے دیا تھا کہ فی نفسہ وہ حلال تھا، گو مردوں کے لئے اسے پہننا حرام تھا گویا ایسی چیزیں جو ایک اعتبار سے حلال اور ایک اعتبار سے حرام ہوں ام کی تجارت جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4041