الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 403
403۔ اردو حاشیہ: ➊ «اِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيحِ جَهَنَّمَ» یعنی ”گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے یا اس کی جنس سے ہے۔“ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان کی توضیح نہیں فرمائی اس لیے ہمارے نزدیک اسے ظاہر ہی پر محمول کرنا زیادہ بہتر ہے جبکہ کچھ علماء نے اسے تشبیہ واستعارہ قرار دیا ہے۔ ظاہر اور حقیقت پر محمول کرنے کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ ”آگ نے اپنے رب سے شکایت کی تو اس کو دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سردی میں اور ایک گرمی میں۔“[صحيح مسلم، حديث: 217] ➋ «أَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ» یعنی ”نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو۔“ اس سے وہ وقت مراد ہے جب بعد از زوال ہوائیں چلنا اور گرمی کی شدت میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے اور اسی وقت جہنم کچھ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اگر بالکل ہی ٹھنڈک کا وقت مراد لیا جائے تو بعض اوقات عصر کے وقت اور کبھی اس کے بعد بھی ٹھنڈک نہیں ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے معمولات سے اس حدیث کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے۔ دیکھیے: [نيل الاوطار] اور یہ امر جمہور کے نزدیک استحباب وارشاد پر محمول ہے اور کچھ نے اس کے وجوب کے لیے بھی سمجھا ہے۔ «ولله أعلم .» تعجیل وابراد میں رفع تعارض اور جمع میں مذکورۃ الصدر مفہوم کی واضح دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے موقع پر اگر پہلے پہر قتال شروع نہ فرماتے تو زوال کا انتظار کرتے تھے۔ اور اس وقت کو آپ نے ہواؤں کے چلنے، نصرت کے اترنے اور قتال کے لیے مناسب ہونے سے تعبیر فرمایا ہے۔ نص یہ ہے: «كَانَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ، انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الأَرْوَاحُ، وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ»[صحيح بخاري، حديث: 3160 – قال فى الفتح: 6/ 365 – فى رواية ابن ابى شيبة ”ونزول الشمس“ وهو بالمعنى، وزاد فى رواية الطبري ”ويطيب القتال“ وفي رواية ابن أبى شيبة ”وينز ل النصر“]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 403