الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: علاج کے احکام و مسائل
19. باب كَيْفَ الرُّقَى
19. باب: جھاڑ پھونک کیسے ہو؟
حدیث نمبر: 3898
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مَنْ أَسْلَمَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لُدِغْتُ اللَّيْلَةَ فَلَمْ أَنَمْ حَتَّى أَصْبَحْتُ، قَالَ:" مَاذَا؟" قَالَ: عَقْرَبٌ، قَالَ:" أَمَا إِنَّكَ لَوْ قُلْتَ حِينَ أَمْسَيْتَ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ تَضُرَّكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ".
ابوصالح کہتے ہیں کہ میں نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے سنا: اس نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آج رات مجھے کسی چیز نے کاٹ لیا تو رات بھر نہیں سویا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس چیز نے؟ اس نے عرض کیا: بچھو نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اگر تم شام کو یہ دعا پڑھ لیتے: «أعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق» میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ چاہتا ہوں اس کی تمام مخلوقات کی برائی سے تو ان شاءاللہ (اللہ چاہتا تو) وہ تم کو نقصان نہ پہنچاتا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3898]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15564)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/448، 5/430) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن أبي داودلو قلت حين أمسيت أعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق لم تضرك إن شاء الله

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3898 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3898  
فوائد ومسائل:
اصل شرعی اور مسنون تعویذ یہی اذکار ہیں جو بندے کو اپنے رب سے جوڑ دیتے ہیں اور انسان اپنے اللہ کی حفاظت اور امان میں آجاتا ہے۔
ان میں بنیادی بات ایمان یقین رزقِ حلال اور صدق مقال کی ہے۔
اور تعویز صبح شام دونوں وقت پابندی سے پڑھنا چاہیئے اور بچوں پر دم کرنے چاہییں، لکھ کر لٹکا نے کا رواج بہت بعد میں ہو ا ہے۔
عہد خیر القرون میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3898