الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
25. باب النَّهْىِ عَنْ أَكْلِ الْجَلاَّلَةِ، وَأَلْبَانِهَا
25. باب: گندگی کھانے والے جانور کے گوشت کو کھانا اور اس کے دودھ کو پینا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3785
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْجَلَّالَةِ وَأَلْبَانِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاست خور جانور کے گوشت کھانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 3785]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأطعمة 24 (1824)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 11 (3189)، (تحفة الأشراف: 7387) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1824) ابن ماجه (3189)
ابن أبي نجيح مدلس وعنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 134

   جامع الترمذينهى عن أكل الجلالة وألبانها
   سنن أبي داودنهى عن الجلالة في الإبل أن يركب عليها
   سنن أبي داودنهى عن الجلالة في الإبل أن يركب عليها أو يشرب من ألبانها
   سنن أبي داودنهى عن أكل الجلالة وألبانها
   سنن ابن ماجهنهى عن لحوم الجلالة وألبانها
   بلوغ المرامنهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن الجلالة والبانها

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3785 کے فوائد و مسائل
  الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 3785  
فقہ الحدیث:
اس حدیث سے جلالہ کی قطعی حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے استعمال سے اس وقت تک روکا گیا ہے جب تک کہ اس گندی خوراک کی بدبو زائل نہ ہو جیسا کہ:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صحیح چر سے ثابت ہے کہ: «إنه كان يحبس الدجاجة الجلالة ثلاثا»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جلالہ مرغی کو تین دن بند رکھتے تھے (پھر استعمال کر لیتے تھے)۔ [رواه ابنِ ابي شيبه]
علامہ ناصرا لدین البانی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ [ارواء الغليل ج8، ص151]
اور سنن ابوداود کے مشہور شارح علامہ شمس الحق عظیم آبادی عون المعبود میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
«قال الخطابي واختلف الناس فى أكل لحوم الجلالة وألبانها فكره ذلك أصحاب الرأي والشافعي وأحمد بن حنبل وقالوا لا يؤكل حتى تحبس أياما وتعلف علفا غيرها فإذا طاب لحمها فلا بأس بأكله وقد روي فى حديث أن البقر تعلف أربعين يوما ثم يؤكل لحمها وكان بن عمر تحبس الدجاجة ثلاثة أيام ثم تذبح»
امام خطابی فرماتے ہیں کہ نجاست خور جانور کے گوشت اور دودھ کے متعلق کچھ اہل الرائے اور شافعیہ اور حنبلی علماء کا کہنا ہے کہ مکروہ ہے، لیکن اگر اس کو گندگی کھانے سے کچھ روز روک لیا جائے اور دوسری پاک غذا کھلائی جائے اور اس کے گوشت سے نجاست کا اثر زائل ہو جائے تو اسے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں، اور ایک حدیث منقول ہے کہ ایسی گائے کو چالیس روز دوسری صاف غذا کھلائی پھر اس کا گوشت کھایا جائے اور سیدنا ابن عمر تین دن ایسی مرغی کو نجاست سے بچا کر اسے ذبح کرتے۔
یہ صرف اس لئے کرتے تھے تا کہ اس کا پیٹ صاف ہو جائے اور گندگی کی بو اس کے گوشت سے جاتی رہے۔
اگر جلالہ کی حرمت گوشت کی نجاست کی وجہ سے ہوتی تو وہ گوشت جس نے حرام پر نشو و نما پائی ہے کسی بھی حال میں پاک نہ ہوتا۔
جیسا کہ ابنِ قدامہ نے کہا ہے کہ اگر جلالہ نجس ہوتی تو دو تین دن بند کرنے سے بھی پاک نہ ہوتی۔ [المغني ج9، ص41]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس صحیح اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ جلالہ کی حرمت اس کے گوشت کا نجس اور پلید ہونا نہیں بلکہ علت اس کے گوشت سے گندگی کی بدبو وغیرہ کا آنا ہے۔ جیسا کہ:
حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں:
«و المعتبر فى جواز اكل الجلالة زوال رائحة النجاسة عن تعلف بالشيى الطاهر على الصحيح» [فتح البارى ج9 , ص 565]
جلالہ کے کھانے کا لائق ہونے میں معتبر چیز نجاست وغیرہ کی بدبو کا زائل ہونا ہے۔ یعنی جب بدبو زائل ہو جائے تو اس کا کھانا درست ہے۔
علامہ صنعانی بھی فرماتے ہیں: «قيل بل الإعتبار بالرائحة و النتن»
کہ جلالہ کے حلال ہونے میں بدبو کے زائل ہونے کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ [سبل السلام، ج3، ص77]
جلالہ کے بارے میں اہل لغت کے اقوال جان لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اکثر اہل لغت نے لکھا ہے کہ:
«ألجلالة هى البقرة التى تتبع النجاسات»
کہ جلالہ وہ گائے ہے جو نجاسات کو تلاش کرتی ہے۔ [لسان العرب ج2، ص336، الصحاح للجوهري ج4، ص1258، القاموس الميط ج1، ص591]
لغت عرب کے مشہور امام ابنِ منظور الافریقی لکھتے ہیں:
«و الجلالة من الحيوان التى تأكل الجلة العذرة»
کہ جلالہ وہ حیوان جو انسان کا پاخانہ وغیرہ کھاتے ہیں۔ [لسان العرب، ج2، ص336]
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 37230   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1142  
´(کھانے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندگی خور جانور کے گوشت کھانے اور اس کے دودھ پینے سے منع فرمایا ہے۔ نسائی کے علاوہ اسے چاروں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1142»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الأطعمة، باب النهي عن أكل الجلالة وألبانها، حديث:3785، والترمذي، الأطعمة، حديث:1824، وابن ماجه، الذبائح، حديث:3189، ابن أبي نجيح عنعن، وحديث أبي داود (2557، 2558) يغني عنه.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ سنن ابی داود کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے‘ نیز سنن ابن ماجہ میں مذکورہ حدیث کو حسن قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی قابل حجت ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
2. یہ حدیث گندگی خور جانور کی حرمت کی دلیل ہے۔
3. امام خطابی نے کہا ہے کہ ایک حدیث میں یہ مروی ہے کہ گائے گندگی خور ہو تو اسے چالیس روز چارہ کھلایا جائے‘ پھر اس کے بعد اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔
شارح ترمذی نے تحفۃ الاحوذی (۵ /۴۶۴) میں کہا ہے کہ ابن رسلان شرح السنن میں فرماتے ہیں کہ گندگی خور جانور کو پاک صاف خوراک مہیا کرنے اور اسے گندگی سے بچانے کے لیے اسے بند کر کے رکھنے کی کوئی معین و مقرر مدت نہیں ہے۔
اور بعض کی یہ رائے ہے کہ اونٹ اور گائے کے لیے چالیس روز، بکری کے لیے سات روز اور مرغی کے لیے تین روز کی مدت ہے۔
اسی رائے کو المہذب اور التحریر میں پسند کیا گیا ہے۔
اور سبل السلام میں ہے کہ وقت کی تعیین کے سلسلے میں باہمی مخالفت کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہو سکتی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1142   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2558  
´گندگی کھانے والے جانور پر سواری منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندگی کھانے والے اونٹوں کی سواری کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2558]
فوائد ومسائل:
دیگر احادیث میں ایسے جانور کا دودھ پینے اور اس کا گوشت کھانے کی بھی ممانعت وارد ہے۔
دیکھئے۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3785)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2558   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3787  
´گندگی کھانے والے جانور کے گوشت کو کھانا اور اس کے دودھ کو پینا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاظت کھانے والے اونٹ کی سواری کرنے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3787]
فوائد ومسائل:
فائدہ: جلالہ اس جانور کو کہتے ہیں۔
جو نجاست کھائے۔
امام ابن حزم نجاست خور مرغی کو اس میں شامل نہیں کرتے۔
لیکن اکثریت کے مطابق مرغی سمیت تمام پرندے بھی اگر نجاست خور ہوں تو جلالہ ہی میں آیئں گے۔
ابو اسحاق المروزی۔
امام الحرمین۔
بغوی اور غزالی نے نجاست خور مرغی کے انڈے کو نجاست خور بکری گائے وغیرہ کے دودھ پر قیاس کیا ہے۔
بلکہ ہر اس جانور کو جلالہ کے حکم میں شامل کیا ہے۔
جس کی پرورش نجس خورا ک پر ہو۔
مثلا ایسا بکری کا بچہ جس کی پرورش کتیا کے دودھ پر کی گئی ہو۔
دیکھئے۔
(فتح الباري،کتاب لذبائح والصید، باب لحم الدجاج) آج کل مرغیوں کی خوراک میں حیوانی پروٹین کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
خون وغیرہ تو پاکستان جیسے مسلم ممالک میں بھی فیڈ میں ڈالا جاتا ہے۔
غیر مسلم ممالک میں حرام جانوروں کے گوشت اجزاء بھی فیڈ میں استعمال ہوتے ہیں۔
کیا اس قسم کی مرغی جلالہ کہلائے گی؟ ہاں اگر اس کی غذا کا زیادہ تر حصہ حرام اور نجس اجزاء پر مشتمل ہو یا اس سے گوشت انڈے وغیرہ میں بد بو پیدا ہوجائے۔
تو یقیناً حرام ہوگی۔
کسی جانور کے حلالہ نہ ہونے کی وجہ سے یہی دو باتیں اہم ہیں۔
بعض فقہاء نے کہا ہے کہ اگراس کی غذا کا زیادہ حصہ نجس ہے تو جلالہ ہے۔
تاہم امام لیث کے نذدیک جانور اگر صرف نجاست کھاتا ہے۔
تو جلالہ ہے۔
رافعی وغیرہ کا خیال ہے کہ غذا کی مقدار اہم نہیں۔
اصل اہمیت گوشت دودھ وغیرہ میں بو پیدا نہ ہونے کی ہے۔
اگر یہ اشیاء بو سے پاک ہیں تو استعمال کرلی جایئں اور گر بدبودار ہیں تو ممنوع ہیں۔
وٹرنری اور ڈاکٹروں اور فیڈ سازوں کے مطابق مغربی ممالک کی مرغیوں کی فیڈ میں کسی حد تک ملی جلی حیوانی پروٹین شامل ہوتی ہیں۔
عمومی تجربہ یہ ہے کہ ان کے گوشت میں کوئی ناگواربو پائی نہیں جاتی۔
اس لئے یہ مرغیاں جلالہ کے حکم میں شامل نہ سمجھی جایئں گی۔
البتہ یہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنے استعمال کے لئے خود فارم بنایئں کفار سے ایسی اشیاء کی درآمد پر انحصارختم کریں۔
اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ اگر ایسے جانور کو باندھ کر اسے صرف چارہ وغیرہ کھلایا جاتا رہے۔
تو کچھ عرصے کے بعد اس کا گوشت دودھ وغیرہ نجاست کے اثرات سے پاک ہوجاتا ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ابن ابی شیبہ نے صحیح سند سے حضرت ابن عمر کاعمل نقل کیا ہے کہ وہ جلالہ مرغی کو تین روز تک بند رکھا کرتے تھے۔
بڑے جانوروں گائے اونٹ وغیرہ کے بارے میں عطا اور دیگر فقہاء چالیس دن بند رکھ کر چارہ دکھلانے کے بعد اس کا گوشت کھانے کی اجازت دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں حضرت عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرفوع حدیث کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔
جس میں جلالہ کی حرمت اور حلت کےلئے جانور کو چالیس روز تک محبوس رکھنے کا حکم ہے۔
لیکن یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
البتہ صحیح احادیث میں شراب پینے والے انسان کی چالیس روز تک نماز قبول نہ ہونے کی صراحت موجود ہے۔
(سنن النسائي، الأشربة۔
باب الذکر الآثام المتولدة من شرب الخمر۔
۔
۔
حدیث 5672۔
5671 وجامع الترمذیي، الأشربة، باب ما جاء في شارب الخمر، حدیث: 1862)
 جس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے۔
کہ نجس چیز کے استعمال کے اثرات چالیس روز کے بعد اجسام سے زائل ہوجاتے ہیں۔
بعض فقہاء مثلا مام نووی کہتے ہیں کہ اصل وجہ منع چونکہ بدبو ہے۔
اس لئے جب یہ زائل ہوجائے تو جانور کا گوشت اور دودھ وغیرہ شرعا قابل استعمال ہوگا۔
دیکھئے۔
  (عون المبعود، الأطعمة۔
باب النھي عن أکل الحلالة، ألبانھا)
 یہ حکم غالبا نجاست زدہ کنویں کے پانی کو صاف کرنے کے حکم سے مشابہ ہے کہ نجاست زائل کرنے کے بعد اس وقت تک پانی نکالا جاتا رہے، حتی کہ وہ بورنگ اور ذائقے میں بالکل صاف ہوجائے۔
نجاست خوراونٹنی وغیرہ پر سواری کرنا بھی اس وقت جائز ہوگا۔
جب اس کے جسم (پسینے وغیرہ) سے نجاست کی بدبو بالکل زائل ہوجائے گی۔
طہارت اور پاکیزگی کا یہ اعلیٰ معیار صرف اس دین کا بتایا ہوا ہے۔
خود اللہ تعالیٰ نے یہ صفت بیان فرمائی (وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ) (الأعراف:157) پاکیزہ اشیاء کو حلال ٹھراتے ہیں۔
اور تمام گندگیوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3787   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3189  
´جلالہ (گندگی کھانے والے جانور) کا گوشت کھانا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جلالہ» (گندگی اور نجاست کھانے والے جانور) کے گوشت اور اس کے دودھ سے منع فرمایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3189]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جلالہ اس جانور کو کہتے ہیں جو گندگی کا اس حد تک عادی ہوجائے کہ ا س کا گوشت اور دودھ اس سے متاثر ہوجائے۔

(2)
بعض علماء کے نزدیک اگر ایسے جانور کو باندھ کر رکھا جائے اور پاک صاف غذا کھلائی جائے حتی کہ نجاست کا اثر ختم ہوجائے تو یہ جانور جلالہ کی نسبت سے نکل جاتا ہے، لہٰذا اس کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہوتا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابو داود، (اردو طبع دارالسلام)
حديث: 3787 کے فوائد)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3189